جرمنی اور ترکی کے رہنماؤں نے لاکھوں کی تعداد میں شامی تارکینِ وطن کی ترکی کے راستے یورپ کی جانب ہجرت سے پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے کے لیے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان یہ اتفاقِ رائے اتوار کو جرمن چانسلر اینگلا مرخیل اور اور ترک وزیرِاعظم احمد داؤد اولو کے درمیان استنبول میں ہونے والی ملاقات کے دوران ہوا۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِاعظم اولو نے "تارکینِ وطن کا بوجھ بانٹنے کی یورپی یونین کی پالیسی" کی تعریف کی اور کہا کہ اس بحرانی صورتِ حال میں تمام متعلقہ فریقوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔
ترک وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ عالمی برادری نے لاکھوں شامی پناہ گزینوں کے سیلاب سے نبٹنے کے لیے ابتداً ترکی کو تنہا چھوڑ دیا تھا جو ایک قابلِ افسوس عمل تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ دنیا خصوصاً یورپی ممالک اب بہتر طرزِ عمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور تارکینِ وطن کا بوجھ بانٹنے کے لیے آگے آرہے ہیں۔
یورپی یونین کے رکن ملکوں نے گزشتہ ہفتے برسلز میں ہونے والے اپنے سربراہی اجلاس میں مہاجرین کے بحران سے نبٹنے کے لیے ایک منصوبے کی منظوری دی تھی جس میں ترکی مرکزی کردار ادا کرے گا۔
منصوبے کے تحت ترک حکومت مہاجرین کو غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچانے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی اور اپنے ہاں مقیم 20 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کا یورپ میں داخلہ روکنے کے لیے اقدامات کرے گی۔
ان اقدامات کے جواب میں یورپی یونین نے ترک حکومت کو یورپی ملکوں کے دورے کے خواہش مند ترک شہریوں کو ویزے کی جلد فراہمی اور ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کے معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
مہاجرین کا بوجھ بانٹنے کے لیے یورپی یونین ترکی کو لگ بھگ ساڑھے تین ارب ڈالر کا ایک امدادی پیکج بھی دے گی جسے ترکی میں مقیم شامی پناہ گزینوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی پر خرچ کیا جائے گا۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیرِاعظم احمد اولو کا کہنا تھا کہ ترک حکومت غیر قانونی ہجرت روکنے اور بے سہارا لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کے لیے یورپ کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ یورپ کو شام کا بحران حل کرنے کی کوششوں میں بھی ترکی کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا تاکہ پناہ گزینوں کے بحران کا جڑ سے خاتمہ کیا جاسکے۔