ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ کی طرف سے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کے بعد ہفتہ کے صبح استنبول میں اپنے حامیوں سے خطاب میں دعویٰ کیا کہ ملک کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے اور ’بغاوت‘ کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔
ترکی کی حکومت کے مطابق بغاوت میں حصہ لینے والے فوجیوں میں سے کم از کم 2839 کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل ہلوزی اقر کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔
ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق لگ بھگ 200 فوجیوں نے ہتھیار پھینک دیئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق باغی فوجیوں نے جنرل ہلوزی کو یرغمال بنا رکھا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب ملک میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کے دوران دارالحکومت انقرہ میں 161 افراد ہلاک اور 1400 سے زائد زخمی ہوگئے۔
بغاوت کی اطلاعات کے بعد صدر رجب طیب اردوان نے سب سے پہلے موبائل فون کے ذریعے ایک پیغام میں اس کوشش کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔
اُنھوں نے استنبول پہنچنے پر پہلے نیوز کانفرنس کی اور بعد میں ہفتہ کی صبح اپنے حامیوں سے خطاب کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ترک عوام نے حکومت کا تختہ الٹنے کی اس کوشش کو ناکام بنایا جب کہ اس میں ترک حکومت کی حامی فورسز نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
طیب اردوان تعطیلات پر ملک کے جنوب مغربی ساحلی علاقے میں تھے جہاں سے وہ استنبول پہنچے۔
اُن کی اپیل پر ملک میں بڑی تعداد میں لوگ باہر نکل آئے، خاص طور پر دارالحکومت انقرہ اور استبول میں بڑی تعداد میں لوگ رات بھر موجود رہے، جن میں سے بعض فوج کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تو بعض نے ٹینکوں پر قبضہ کر لیا۔
ترکی میں جمعہ کی شام کو فوجی بغاوت کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد سڑکوں پر ٹینک نظر آنا شروع ہو گئے تھے، جب کہ اہم پلوں کو بھی فوجیوں نے ٹینک کھڑے کر کے بند کر دیا تھا۔
تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران انقرہ میں ترکی کی پارلیمان میں گھسنے والے کچھ فوجی اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا جب کہ شہر میں فائرنگ کی آوزیں بھی سنی گئیں۔
ترکی کی پارلیمنٹ اور صدارتی محل کو بھی نقصان پہنچا۔
تختہ اُلٹنے کی اس کوشش میں شامل فوجی اہلکاروں نے ملک کے سرکاری ٹی وی پر کچھ دیر کے لیے قبضہ کر کے اعلان کیا تھا کہ فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
لیکن بعد میں سرکاری ٹیلی ویژن کی نشریات بحال ہو گئی ہیں۔
رجب طیب اردوان نے استنبول واپس پہنچنے پر ہوائی اڈے ہی پر ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا کہ مارشل لا لگانے کی کوشش ’بغاوت‘ ہے اور اُن کے بقول ایسی کوشش کرنے والوں کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترکی کے انٹیلی جنس ادارے ’ایم آئی ٹی‘ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ مارشل لا کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔
ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے مناظر کے مطابق باسفورس پل پر موجود فوجیوں نے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار رکھ دیے۔
اس سے قبل فوجی اہلکاروں نے باسفورس پر ٹینک کھڑے کر کے اسے بند کر دیا تھا، یہ پل ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں کو ملانے کا اہم ذریعہ ہے۔
ترکی وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے باغی فوجیوں کے پاس کچھ جنگی جہاز بھی تھے اور اُنھوں نے فضا سے گولہ باری بھی کی لیکن اُنھیں روکنے کے لیے فوری طور پر حکومت کے جنگی جہاز حرکت میں آئے۔
انقرہ اور استنبول میں رات بھر ہیجان کی سی کیفیت رہی اور دھماکوں کی آوزیں بھی سنی گئیں۔ اس دوران عینی شاہدین کے مطابق جنگی جہاز نچلی پروازیں بھی کرتے رہے۔