ترکی نے جنگ سے متاثرہ ملکوں سے یورپ جانے والے مہاجرین کو ہوائی سفر سے روک دیا

فائل فوٹو

ترکی نے جمعے کے روز عراق، شام اور یمن کے شہریوں کو بیلاروس جانے کے لیے ہوائی سفر کے ٹکٹ جاری کرنا بند کر دیئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بیلاروس یورپ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین کے لیے راہداری کا ایک اہم مرکز بن چکا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، ترکی کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب یورپی یونین نے ایئرلائنز پر دباو ڈالا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ سے لوگوں کو بیلاروس کے دارالحکومت منسک لانا بند کریں۔

اس سال موسم گرما سے اب تک ہزاروں پناہ گزیں پولینڈ، لیتھوینیا اور لیٹویا کے راستے یورپی یونین کے ملکوں میں داخل ہوئے ہیں۔ بہت سے مہاجرین کو یورپی یونین کے ممالک میں داخلے سے روکا بھی گیا ہے۔

سردیوں کے آغاز میں یورپی یونین کی سرحدوں پر مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی ایک انسانی بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ یہ صورت حال بیلاروس کی آمرانہ حکومت اور مغرب کے درمیان ایک نئی کشیدگی کو جنم دے رہی ہے۔

ادھر روس نے جمعے کے روز پولینڈ کی سرحد سے قریب بیلاروس کے گروڈنو خطے میں اپنے حلیف کی حمایت کے اظہار کے طور پر کئی چھاتہ برداروں کو اتارا۔ یاد رہے کہ روس نے اس ہفتے اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کو لے جانے والے بمبار طیارے بھی بیلاروس کی فضا میں دو دن تک چوکسی کے لیے بھیجے تھے۔

مشرق وسطیٰ سے آنے والے مہاجرین میں عراقی کرد اور شام کے لوگ شامل ہیں جو جنگ اور غربت سے بھاگ کر دوسرے ملکوں میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔
ان میں سے بہت سے لوگ جرمنی یا دوسرے مغربی ممالک پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ وہ وہاں آباد اپنے رشتہ داروں سے جا ملیں۔

ترکی کی ایوی ایشن اتھارٹی نے کہا ہے کہ پروازوں کے لیے مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کے شہریوں کو ٹکٹ نہ جاری کرنے کا فیصلہ اگلے اعلان تک جاری رہے گا۔

ترکی کے اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بیلاروس کی ایئر لائنز بیلیویا نے کہا کہ وہ عراق، شام اور یمن کے شہریوں کو استنبول سے منسک کی پرواز میں سفر کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

ایئرلائنز نے کہا کہ وہ اس راستے سے سفر کرنے کے لیے پہلے سے خریدی گئی ٹکٹوں کی رقوم واپس لوٹا دی گی۔

ادھر یورپی یونین نے کہا ہے کہ اس نے اس بات کی تصدیق کر لی ہے کہ عراقی ایئر ویز، جس نے پہلے ہی منسک آنے والی پروازوں کو منسوخ کر دیا تھا، اب اس راستے پر پروازوں کو بحال نہیں کرے گی۔

خیال رہے کہ یورپی یونین اور پولینڈ کے حکام عرصے سے بیلاروس کے صدر الیگزانڈر لکاشنکو پر الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ وہ مہاجرین کو غیرقانونی طور پر یورپ کی سرحدیں پار کرنے میں مدد کرتے ہیں اور وہ ایسا یورپی یونین کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں کے خلاف ردعمل کے طور پر کر رہے ہیں۔

یورپی یونین نے گزشتہ سال کے متنازعہ انتخابات کے بعد لکاشنکو پر اپنے مخالفین کے خلاف ظالمانہ کریک ڈاون کرنے کی پاداش میں پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔