|
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے ایک ایسے وقت میں استنبول میں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی سربراہی میں آنے والے وفد کی میزبانی کی ہے جب اسرائیل حماس جنگ پر حکومت کے مؤقف کی وجہ سے انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے۔
ایردوان کی حماس کے ساتھ ملاقات کے بعد نیوز کانفرنس نہیں کی گئی۔ ترکیہ کے صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ حماس کے لیڈر کے ساتھ کن موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ حماس کے سیاسی سربراہ ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے قطر میں مقیم ہیں۔
ترک حکومت کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق صدر ایردوان اور حماس کے رہنما کے درمیان فلسطینی علاقوں بالخصوص غزہ میں اسرائیل کے حملوں، غزہ میں امداد کی فراہمی اور خطے میں پائیدار امن کے لیے شفاف عمل سے متعلق تجاویز پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
ایک اور بیان میں ایردوان کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے بتایا ہے کہ ملاقات میں عسکریت پسند گروپ حماس کے رہنما بھی موجود تھے۔
ہنیہ نے ایسے وقت میں ترکیہ کا دورہ کیا ہے جب حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی اسلامسٹ جماعت ‘نیو ویلفیئر پارٹی‘ اسرائیل حماس جنگ اور غزہ میں امداد سے متعلق صدر ایردوان کے مؤقف پر سوال اٹھا رہی ہے۔
9 اپریل کو ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے ترکیہ میں اسرائیل کے بائیکاٹ کے زور پکڑتے ہوئے مطالبات کے بعد اسرائیل کو برآمدات محدود کرنے کا اقدامات کا اعلان کیا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایردوان کی اسماعیل ہنیہ سے ملاقات کا مقصد اپنی سیاسی حمایت مستحکم کرنے کی ایک کوشش تھی۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ؛ کیا صدر ایردوان اسرائیل سے متعلق ’محتاط‘ ہیں؟استنبول سے تعلق رکھنے والے مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ایک ماہر ارہان کیلیس اولو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کے انکشاف کے بعد کہ ترکیہ اسرائیل سے تجارت جاری رکھے ہوئے ہے، اے کے پی اور ایردوان کو فلسطین ایشو سے متعلق شدید دھچکا لگا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حماس کے رہنماؤں سے ملاقات نے دراصل صدر ایردوان کو عوام میں اپنا امیج بہتر کرنے کا موقع فراہم کیا۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ وہ فلسطینی کاز اور حماس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس سے قبل ترکیہ کے وزیرِ خارجہ خاقان فیدان نے 17 اپریل کو قطر کا دورہ کیا تھا جہاں دوحہ میں اسماعیل ہنیہ سے ملاقات بھی کی تھی۔
بعد ازاں اپنے قطری ہم منصب شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی کے ساتھ پریس کانفرنس میں فیدان کا کہنا تھا کہ حماس 1967 کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرتی ہے۔
بعض ماہرین ترکیہ کے حماس کے ساتھ بڑھتے تعلقات کو اس معاملے میں ثالث کا کردار حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ (ایم ای آئی) سے تعلق رکھنے والے مبصر ایورین بالٹا نے اپنے ایک حالیہ بلاگ میں لکھا ہے کہ ترکیہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بحال کرنے کے لیے ثالث کا کردار کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر جب قطر ثالث کے طور پر اپنی تمام تر صلاحیت کو بروئے کار لا چکا ہے۔ ترکیہ نے حال ہی میں ایران سے متعلق بھی ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔
SEE ALSO: حماس دہشت گرد تنظیم نہیں: صدر ایردوان، اسرائیل اور اٹلی کی سخت مذمتایون بالٹا کا مزید کہنا ہے کہ ترکیہ کی کوششوں کے باوجود اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس کردار سے متفق ہوں گے جو ترکیہ ادا کرنا چاہتا ہے یا حماس کے عسکری ونگ کی تحلیل کو اس تنظیم سے معاملات آگے بڑھانے کے لیے کافی سمجھیں گے۔
اسرائیل کا ردِ عمل
اسرائیل کے وزیرِ خارجہ اسرائیل کاٹز نے 20 اپریل کو صدر ایردوان اور اسماعیل ہنیہ کی ملاقات کی ایک تصویر اپنے اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر پوسٹ کی اور ساتھ ہی تبصرہ کیا: ’’ایردوان کو شرم آنی چاہیے۔"
انہوں نے ’اخوان المسلمین‘ کی جانب سے ’ریپ، قتل اور لاشوں کی بے حرمتی‘ کے الزامات کا بھی گنوائے۔
واضح رہے کہ حماس مصر میں قائم ہونے والی اسلامسٹ تنظیم اخوان المسلمین کے نظریات کی حامی ہے اور ماضی میں ایردوان کی جماعت 'اے کے پی' بھی اس کی حمایت کرتی رہی ہے۔
ترک وزراتِ خارجہ کے ترجمان اونجو قیچیلی نے اسرائیلی وزیرِ خارجہ کی پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ شرم اسرائیلی حکام کو آنی چاہیے جنھیوں نے 35 ہزار فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا ہے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ اکتوبر سے غزہ میں جاری جنگ کے دوران 34 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ترک ملیشیا سے موازنہ
صدر ایردوان نے 17 اپریل کو اپنی جماعت اے کے پی کے پارلیمانی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں جاری تنازع سے متعلق اپنی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
ان کا کہنا تھا: ’’ہمارے بعض اقدامات ممکن ہے آپ کو نظر نہ آتے ہوں۔ ہم بعض باتوں کی تفصیل نہیں بتا سکتے۔ تاہم جو لوگ بھی فلسطین سے متعلق ہماری حساسیت پر سوال اٹھا رہے ہیں انہیں جلد یا بدیر رسوائی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
ایردوان نے مزید کہا: ’’میں دو ٹوک انداز میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ حماس آزادی کی جنگ لڑنے والی ترکیہ کی قوا یی ملیے کی طرح ہے۔‘‘
قوا یی ملیے (قومی فوج) 1918 میں قائم ہونے والی ترک ملیشیا تھی جس نے ترکیہ کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا اور بعد ازاں یہ جدید ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک کی سربراہی میں منظم ہوئی۔
انہوں ںے حماس کو ’اپنی سرزمین کی حفاظت کرنے والی مجاہدین کی تنظیم‘ قرار دیا۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
ایردوان کے اس بیان سے ترکیہ میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا تھا اور مرکزی اپوزیشن جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے ترک قومی فورس اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے درمیان موازنے کو مسترد کر دیا تھا۔
سی ایچ پی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کے لیے دو ریاستی حل تجویز کرتے ہیں۔
(حلمی حاجالولو،ایزل ساہنکیا، وی او اے نیوز)