شام کے معاملے پر ترکی کا امریکہ اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار

فائل

ترک صدر رجب طیب اردوان شام کی کشیدگی دور کرنے کے معاملے پر ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ شام سے متعلق تناؤ کے بارے میں امریکہ، روس اور دیگر ملکوں کو احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہفتہ، سات اپریل کو شامی حکومت کی افواج کی جانب سے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا، جس میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے، فضائی کارروائی کی صورت میں جواب دینے کی دھمکی دے چکے ہیں۔

اردوان نے جمعرات کو رات گئے ٹیلی فون پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے گفتگو کی، جس سے قبل اُن کی ٹرمپ سے علیحدہ بات ہوئی تھی۔

انقرہ میں مشرق وسطیٰ تکنیکی یورنیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر، حسین باقی نے کہا ہے کہ ’’اِس وقت اردوان ہی وہ شخص ہیں جو اِن دونوں سربراہان سے بات کر سکتے ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’ایک طرف وہ (اردوان) نیٹو کے ایک قریبی اتحادی ہیں، تو دوسری جانب وہ روس کے اسٹریٹجک ساتھی ہیں۔ اردوان کے پاس گنجائش ہے۔ ترکی کے علاوہ نا تو امریکہ نا ہی روس شام میں بہت کچھ کر سکتا ہے‘‘۔

روسی پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ، ولادیمیر شمانوف نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ’’امریکہ اور روس کے چیفز آف اسٹاف کے درمیان مکالمے کا آغاز ہوچکا ہے۔ ترکی کے ہم منصبوں کی وساطت سے یہ رابطہ ممکن ہوا ہے‘‘۔

نیٹو کے سکریٹری جنرل ژاں اسٹولٹنبرگ کی پیر کو انقرہ آمد متوقع ہے جہاں وہ شام کے بحران پر بات چیت کریں گے۔

ترکی روس کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے اردوان نے پوٹن اور ایرانی صدر حسن روحانی کی میزبانی کی، تاکہ نام نہاد ’آستانہ عمل‘ کے تحت شامی خانہ جنگی کو ختم کرنے کی کوششوں پر گفتگو کی جاسکے۔

تجریہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترکی، جو 30 ارب ڈالر کے اخراجات برداشت کرتے ہوئے 30 لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، اُسے ڈر لاحق ہے کہ شام میں امریکی قیادت میں ہونے والے کسی حملے کی صورت میں ملک میں لڑائی بند کرنے کی کوششیں پٹڑی سے اتر جائیں گی۔