کرد باغی گروپ PKK کے خلاف حال ہی میں ترکی نے جو فوجی کارروائی کی ہے، اطلاعات کے مطابق وہ گذشتہ عشرے کا بہت بڑا آپریشن تھا ۔ ہزاروں سپاہیوں نے جنہیں ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل تھی، باغیوں کی تلاش میں ایک ہفتہ صرف کیا جنھوں نے گذشتہ مہینے 24 ترک سپاہیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور ترکی کی سرحد کے اندر گھس کر بہت سے حملے کیے تھے۔ PKK 1989ء سے زیادہ حقوق اور مقامی خود مختاری کے لیے ترکی کی حکومت کے ساتھ بر سرِ پیکار ہے۔
Metehan Demir جو ترک اخبار حریت میں دفاعی امور پر لکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ 1990 کی دہائی سے اب تک کے تقریباً 30 فوجی آپریشنز کی طرح، اس تازہ ترین آپریشن کا اثر بھی محدود ہو گا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ترکی مستقبل میں عراق سے باغیوں کی در اندازی کو روکنے کے لیے ایک بفر زون قائم کرنے پر غور کر رہا ہے ۔ لیکن اس خیال کو عملی شکل دینے میں کچھ مسائل ہیں۔
وہ کہتے ہیں’’ترکی ایک عرصے سے اس حل کے بارے میں سوچ رہا ہے ، لیکن ترکی کے لیے بفر زون قائم کرنا آسان نہیں ہے کیوں کہ عراقی انتظامیہ بھی اسے قبول نہیں کرے گی ۔ اگر آپ آج کل کے حالات پر نظر ڈالیں، تو وہ سرحد پار ترکی کے موجودہ آپریشن کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ، پس پردہ بات یہ ہے کہ امریکہ ترکی کو بفر زون قائم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘‘
PKK کے باغیوں کو عراق میں اپنے اڈوں سے ترکی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے ایک عرصے سے عراقی سرحد پر پہاڑی دروں کو کنٹرول کرنا ہی ایک مؤثر طریقہ سمجھا گیا ہے ۔ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ نیم خود مختار عراقی کردش انتظامیہ کی جانب سے جو اس علاقے کو کنٹرول کرتی ہے، اس طریقے کو وسعت دینے اور کوئی بفر زون قائم کرنے کی مزاحمت کی جائے گی ۔
ترک وزیرِ خارجہ احمد داوت اوغلو نے گذشتہ ہفتے کہا کہ انقرہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چلا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ عراق کے شمال میں علاقائی انتظامیہ کو یا تو خود دہشت گردی کے ٹھکانوں کو روکنا چاہئیے یا ترکی کے ساتھ تعاون کرنا چاہئیے ، ورنہ ترکی فورسز خود عراق میں داخل ہو کر انہیں روک دیں گی ۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا حق ہے جس کا ماخذ بین الاقوامی قانون ہے۔‘‘
PKK کے باغیوں کے خلاف ترکی کے موقف میں روز بروز جو سختی آ رہی ہے، اسے واشنگٹن کی حمایت حاصل ہے ۔ سابق بریگیڈیر جنرل Haldun Solmazturk جنہیں عراق میں سابق فوجی کارروائیوں کا تجربہ ہے، کہتےہیں کہ ترکی اس قسم کی فوجی کارروائی صرف اسی صورت میں کرسکتا ہے جب اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہو۔’’ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں فریقوں، ترکوں اور امریکیوں کے درمیان اتفاق رائے موجود ہے کہ کس قسم کی کارروائیاں کی جانی چاہیئں۔‘‘
امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے PKK کے حالیہ حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ امریکہ متشدد انتہا پسندی کے خلاف ترکی کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
امریکہ نے ترکی کے تازہ ترین آپریشنز پر تنقید نہیں کی ہے ، اگرچہ بغداد اور مقامی کردش قیادت کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔