اطلاعات کے مطابق، امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن حال ہی میں جب ترک وزیرِ خارجہ احمت داوت اوگلو سے ملیں، تو انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترکی اور اسرائیل اپنے تعلقات ٹھیک کر لیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین بھی اس کوشش میں شامل ہوگئی ہے۔ یورپی پارلیمینٹ میں سوشلسٹ بلاک کے لیے ترکی کے امور کے ترجمان رچرڈ ہاوٹ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت سے مشرق وسطیٰ پر مثبت اثر پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس معاملے میں، میں ترکی کو الزام نہیں دیتا۔ لیکن اگر کوئی ایسا موقع مل جائے کہ ترکی ایک بار پھر اسرائیل کی طرف سے، اور فلسطینیوں اور عربوں کی جانب سے مصالحت کنندہ کا رول ادا کر سکے، تو اس سے فائدہ ہی ہوگا۔‘‘
گذشتہ مہینے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کو ان کے دوبارہ انتخاب پر مبارکباد کا ایک خط بھیجا۔ اس خط میں انھوں نے مصالحت کی اُمید کا اظہار بھی کیا۔.
ایسا لگتا تھا کہ ترکی اس خط کا مثبت جواب دے رہا ہے جب ترک بحری جہاز ماوی مارمارا ،جس پر پچھلے سال ترکوں کو ہلاک کیا گیا تھا، اس سال اسرائیلی کی غزہ کی اقتصادی ناکہ بندی کو توڑنے کی کوشش سے الگ ہو گیا۔
لیکن ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سیلکک اونال کہتے ہیں کہ ترکی کے بنیادی موقف میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان کے مطابق ’’ہم کسی ایسے ہاتھ کو مسترد نہیں کرتے جو ہماری طرف بڑھایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں، کچھ رابطے ہوئے ہیں۔ اور ہم ان پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس مسئلے پر ہمارا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے ۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ اُس روز جو لوگ ہلاک ہوئے ان کے لیے ہرجانہ ادا کیا جائے اور معذرت کی جائے۔‘‘
ترکی کی سیاسی کالم نگار اسلی آےڈنٹاسباس کہتی ہیں کہ اب اس تنازعے کے حل میں لفظ معذرت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ’’نیتن یاہو حکومت کے لیے معذرت کرنا بہت مشکل ہے اور اب بھی صورتِ حال یہی ہے۔ ترک عہدے دار کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں، گذشتہ چار یا پانچ مہینوں کے دوران، اسرائیلی معذرت کرنے کے بہت قریب آ گئے ہیں۔ لیکن آخر میں، حکمراں اسرائیلی اتحاد میں مسائل کی وجہ سے، وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے، اور اس مسئلے کی اہمیت اور اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ اس کا اظہار اتنا زیادہ کُھل کر کیا جا چکا ہے، میں نہیں سمجھتی کہ ترکی معذرت سے کم کوئی اور چیز کیسے قبول کر سکتا ہے۔‘‘
استنبول کی قادر ہاض یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر سولی اوزل کہتے ہیں کہ شام میں اور وسیع ترعلاقے میں روز افزوں عدم استحکام سے یہ اُمید پیدا ہوتی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک سال کے مقابلے ہم اس مسئلے کے حل کے بہت قریب آ چکے ہیں کیوں کہ امریکی اس معاملے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حل نکل آئے گا لیکن اسرائیلی انتہائی تذبذب کے عالم میں ہیں۔ ترکی اور اسرائیل کے درمیان طاقت کی کشمکش جاری ہے کہ مشرقی بحرِ روم میں کس کا پلڑا بھاری رہے گا۔ لیکن عرب دنیا میں، اور خاص طور سے شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ان دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔‘‘
کالم نویس آے ڈنٹاسباس کہتی ہیں کہ اسرائیلی حکومت کے نقطۂ نظر سے ایک اہم بات یہ ہے کہ غزہ میں حماس کی حکومت کے ساتھ مسٹر اردوان کے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس اثر و رسوخ سے بہت سے اہم امور میں تعطل کو ختم کیا جا سکتا ہے، بلکہ وہ اسرائیلی سپاہی گیلاڈ شالت کی رہائی کے لیے بھی کام کر سکتے ہیں جسے حماس نے گذشتہ پانچ برسوں سے پکڑا ہوا ہے ۔ آے ڈنٹاسباس کے مطابق ’’وہ حماس کو زیادہ جمہوری موقف اختیار کرنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے تک کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کو تیار ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ وزیرِ اعظم گیلاڈ شالت کو حماس سے رہائی دلانے کے لیے کام کرنے پر بھی رضا مند ہیں۔ لیکن جب تک اسرائیل کی طرف سے معذرت پیش نہیں کی جاتی، وہ کچھ بھی نہیں کریں گے۔‘‘
ترک وزیرِ اعظم مشرقِ وسطیٰ میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ یہ کردار اور زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے اگر اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات بحال ہو جائیں۔ دونوں فریقوں کے لیے اپنے تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے طاقتور ترغیبات موجود ہیں، اگرچہ اب بھی معذرت کا لفظ بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔