ترکی کی پولیس نے کرد باغیوں کے مبینہ حامیوں کے خلاف ملک بھر میں کی گئی کاروائی کے دوران کم از کم 32 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
مذکورہ کاروائی کرد نژاد سیاسی کارکنوں اور علیحدگی پسند باغیوں کے مابین مبینہ تعلقات کے حوالے سے جاری تحقیقات کے سلسلے میں کی گئی ہے۔
تازہ کاروائی کا نشانہ کردوں کی حامی سیاسی جماعت 'پیس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی' بنی ہے جس سے تعلق رکھنے والی کرد نژاد خاتون رکنِ پارلیمان لیلیٰ زانا سمیت جماعت کے کئی ارکان اور عہدیداران کے گھروں اور دفاتر پر پولیس نے جمعہ کو چھاپے مارے۔
یاد رہے کہ زانا پر اس سے قبل 1994ء میں کرد باغیوں کی مسلح تنظیم 'کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)' سے تعلق کا جرم ثابت ہوا تھا جس پر انہیں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
حال ہی میں اپنے ایک بیان میں خاتون رکنِ پارلیمان نے "ہتھیاروں کو کردوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت" قرا ردیا تھا جس پر خاصی تنقید کی گئی تھی کیوں کہ یہ بیان ترک حکام کے معروف موقف کے برخلاف ہے جس میں کرد باغیوں سے ہتھیار پھینک کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ ترکی، امریکہ اور یورپی یونین نے 'پی کے کے' کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ تنظیم سے وابستہ باغی ترکی کے کرد اکثریتی جنوب مشرقی علاقے کی خود مختاری کے حصول کے لیے 1984ء سے مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں جس کے دوران اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ترکی میں 2009ء سے اب تک قانون سازوں، شہروں کے میئرز اور صحافیوں سے سمیت سینکڑوں افراد کو 'کردستان کمیونیٹیز یونین' سے تعلق کے شبہ میں حراست میں لیا جاچکا ہے جسے ترک حکام 'پی کے کے' کا سیاسی بازوقرار دیتے ہیں۔