طرابلس میں سینکڑوں باغییوں نے معمر قذافی کے کمپاؤنڈ پر قبضہ کرلیا ہے۔ اور اس وقت کمپاؤنڈ کے اندر اور باہر جشن کا سماں ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ معمر قذافی اور انکے قریبی ساتھی کہاں ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ قذافی لیبیا ہی میں ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق سینکڑوں باغی فائٹرز قذافی کے باب العزیزیہ کمپاؤنڈ کے مختلف دروازوں سے اندر داخل ہوچکے ہیں اور قذافی کے حامی فوجیوں سے انکی لڑائی جاری ہے۔ اس موقع پر درجنوں باغی خوشی میں ہوائی فائرنگ کرتے نظر آئے۔
قذافی کے کمپاؤنڈ کے اندر اور آس پاس سے دھویں کے گہرے بادل نمودار ہورہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں لیبیا کے نائب سفیر کا کہنا ہے کہ اگلے 72 گھنٹوں میں لیبیا مکمل آزاد ہوجائیگا۔
یورپی یونین کی وزیر خارجہ کیتھرین ایشٹن نے منگل کے روز بتایا باغیوں کے سیاسی رہنما مصطفی عبدل جلیل نے کہا ہے کہ 80 فی صد طرابلس پر انکا قبضہ ہوچکا ہے۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ لیبیا میں امن و امان کی مکمل بحالی تک نیٹو کی فوجی کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔
مذکورہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دارالحکومت طرابلس میں سرکاری افواج اور باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے اور معمر قذافی پر اقتدار چھوڑنے کے لیے عالمی دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔
منگل کو لیبیا میں باغیوں کے مرکزی شہر بن غازی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیرِ خارجہ احمد اوغلو کا کہنا تھا کہ لیبیائی حکومت کے بیرونی دنیا میں منجمد کردہ اثاثوں کو بحال کردینا چاہیے کیونکہ لیبیا کی عوام کو وسائل کی فوری ضرورت ہے۔
اپنی گفتگو میں ترک وزیرِ خارجہ نے کے باغیوں کی 'عبوری قومی کونسل' کے لیے ترک حمایت کا اعادہ بھی کیا۔
اس سے قبل پیر کی شب امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ معمر قذافی کا اقتدار "اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے"۔ صدر اوباما نے مسٹر قذافی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مزید خون خرابے سے بچنے کے لیے باغیوں سے برسرِ پیکار اپنی حامی افواج کو "لیبیا کی خاطر ہتھیار ڈالنے کی ہدایت کردیں"۔
امریکی صدر نے لیبیا کے باغیوں سے بھی اپیل کی کہ وہ ملک میں "پرامن، اجتماعی اور درست طریقوں" کے ذریعے ایک جمہوری حکومت قائم کریں۔
اس سے قبل پیر کو پڑوسی ملک مصر نے بھی باغیوں کی 'عبوری قومی کونسل' کو لیبیا کے عوام کی نمائندہ حکومت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ لیبیائی عوام نے معمر قذافی کے عشروں طویل اقتدار کے خلاف اپنی تحریک مصر کی احتجاجی تحریک سے متاثر ہوکر شروع کی تھی جس کے نتیجے میں رواں برس کے آغاز پر مصری صدر حسنی مبارک کی تین دہائیوں پہ محیط حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
عرب ممالک کی نمائندہ تنظیم 'عرب لیگ، فلسطینی اتھارٹی اور مراکش نے بھی لیبیا ئی حزبِ مخالف کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مراکش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ایم اے پی' کے مطابق ملک کے وزیرِ خارجہ طیب فاس فرحی منگل کو باغیوں کے زیرِ قبضہ مرکزی شہر بن غازی کا دورہ کریں گے۔
گزشتہ روز اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے لیبیا میں اقتدار کی "پرامن منتقلی" پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی ادارہ لیبیا کے عوام کو بحران کے بعد کی صورتِ حال سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے کو تیار ہے۔
عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ وہ رواں ہفتے اہم تنظیموں ، بشمول افریقی یونین، یورپی یونین اور عرب لیگ کے نمائندوں سے لیبیا کےحوالے سے ہنگامی ملاقاتیں کریں گے۔