اِن احتجاجی مظاہروں سے قبل، ایک قانون سازی منظور کی گئی تھی، جس کے لیے ناقدین کا کہنا ہے کہ اِس سے انٹرنیٹ پر حکومتی کنٹرول میں مدد ملے گی
واشنگٹن —
ترکی اب بھی کشیدگی کا شکار ہے، جہاں بلوے سے نمٹنے پر مامور پولیس نے ہفتے کے روز استنبول میں سینکڑوں نفوس پر مشتمل ایک مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے تیز دھار پانی کاچھڑکاؤ کیا اور آنسو گیس کے گولے پھینکنے۔
اِس احتجاج سے قبل ایک قانون سازی منظور کی گئی تھی، جس کے لیے ناقدین کا کہنا ہے کہ اِس سے انٹرنیٹ پر حکومتی کنٹرول میں مدد ملے گی۔
اِس کے ذریعے، حکام کو یہ اجازت ہوگی کہ عدالتی فیصلے کے بغیر نجی زندگی میں دخل اندازی کے الزام پر ویب سائٹس کو بلاک کیا جا سکے۔
انٹرنیٹ تک رسائی دینے والے اداروں کو مجبور کیا جاسکے گا کہ وہ سرکاری اہل کاروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کریں۔
ناقدین نے بتایا ہے کہ یہ قانون سازی مسٹر اردگان کی طرف سے کی جانے والی اُن کوششوں کا حصہ ہے جِن سے اختلافِ رائے کو دبایا جاسکے گا اور آن لائن ثبوت کو روکا جا سکے گا، جس میں اعلیٰ سطح پر جاری بدعنوانی کے واقعات کو دکھایا جاتا ہے۔
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے اِن نئی قدغنوں پر کی جانے والی نکتہ چینی کو مسترد کر دیا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں اُس تشویش کو جنم دیتی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’کمزور حکومت ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے، اور اس طرح، من مانی کرتے ہوئے، وہ سیاسی طور پر مضر مواد کو آن لائن آنے سے روکنا چاہتی ہے‘۔
یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ، مارٹن شُلز نے کہا کہ آزادی اظہار کا گلہ گھونٹے جانے والےماحول میں یہ ایک اور مایوس کُن اقدام ہے؛ جب کہ امریکہ نے بھی اِس بارے میں اپنی بدگمانی کا اظہار کیا ہے۔
جمعے کے روز، ترکی نے آزربائیجان کے ایک صحافی کو ملک بدر کر دیا۔ انگریزی زبان کے روزنامے ’ٹوڈیز زمان‘ نے بتایا ہے کہ اُس کو وزارتِ داخلہ کا ایک حکم نامہ موصول ہوا ہے، جس میں صحافی ماہر زینالوف کو اُن غیر ملکی عناصر کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو ترکی میں داخل نہیں ہو سکتا، جس نے، حکام کے بقول، ’نکتہ چینی کی تمام حدیں پھلانگ لی ہیں۔‘
اِن صحافی کی ملک بدری اُس واقع کے ایک ماہ بعد عمل میں آئی ہے جِس میں وزیر اعظم نے اُن کے خلاف مجرمانہ قسم کی شکایت درج کرائی تھی، جِس میں اردگان حکومت کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے بارے میں لکھے گئے مضامین کے ’لنکس‘ کو ٹوئیٹ کرنے کے بارے میں ذکر کیا گیا تھا۔
اِس احتجاج سے قبل ایک قانون سازی منظور کی گئی تھی، جس کے لیے ناقدین کا کہنا ہے کہ اِس سے انٹرنیٹ پر حکومتی کنٹرول میں مدد ملے گی۔
اِس کے ذریعے، حکام کو یہ اجازت ہوگی کہ عدالتی فیصلے کے بغیر نجی زندگی میں دخل اندازی کے الزام پر ویب سائٹس کو بلاک کیا جا سکے۔
انٹرنیٹ تک رسائی دینے والے اداروں کو مجبور کیا جاسکے گا کہ وہ سرکاری اہل کاروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کریں۔
ناقدین نے بتایا ہے کہ یہ قانون سازی مسٹر اردگان کی طرف سے کی جانے والی اُن کوششوں کا حصہ ہے جِن سے اختلافِ رائے کو دبایا جاسکے گا اور آن لائن ثبوت کو روکا جا سکے گا، جس میں اعلیٰ سطح پر جاری بدعنوانی کے واقعات کو دکھایا جاتا ہے۔
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے اِن نئی قدغنوں پر کی جانے والی نکتہ چینی کو مسترد کر دیا ہے۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں اُس تشویش کو جنم دیتی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’کمزور حکومت ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے، اور اس طرح، من مانی کرتے ہوئے، وہ سیاسی طور پر مضر مواد کو آن لائن آنے سے روکنا چاہتی ہے‘۔
یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ، مارٹن شُلز نے کہا کہ آزادی اظہار کا گلہ گھونٹے جانے والےماحول میں یہ ایک اور مایوس کُن اقدام ہے؛ جب کہ امریکہ نے بھی اِس بارے میں اپنی بدگمانی کا اظہار کیا ہے۔
جمعے کے روز، ترکی نے آزربائیجان کے ایک صحافی کو ملک بدر کر دیا۔ انگریزی زبان کے روزنامے ’ٹوڈیز زمان‘ نے بتایا ہے کہ اُس کو وزارتِ داخلہ کا ایک حکم نامہ موصول ہوا ہے، جس میں صحافی ماہر زینالوف کو اُن غیر ملکی عناصر کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو ترکی میں داخل نہیں ہو سکتا، جس نے، حکام کے بقول، ’نکتہ چینی کی تمام حدیں پھلانگ لی ہیں۔‘
اِن صحافی کی ملک بدری اُس واقع کے ایک ماہ بعد عمل میں آئی ہے جِس میں وزیر اعظم نے اُن کے خلاف مجرمانہ قسم کی شکایت درج کرائی تھی، جِس میں اردگان حکومت کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے بارے میں لکھے گئے مضامین کے ’لنکس‘ کو ٹوئیٹ کرنے کے بارے میں ذکر کیا گیا تھا۔