ترکی نے دنیا بھر کے ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کو بسانے کے معاملے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ترکی کا اصرار ہے کہ پہلے ہی دنیا بھر کے مقابلے میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد یہاں پناہ لئے ہوئے ہے اور یہ کہ وہ مہاجرین کا مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔
استنبول سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ڈوریان جونز کے مطابق افغانستان پر بلائے گئے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے وزیر خارجہ میولت چاوش اولو نے خبردار کیا کہ لاکھوں افغان شہریوں کا یوں در بدر ہونا انسانی المیہ ہے اور یہ وقت مل کر اقدامات کرنے کا ہے۔
موجودہ صورتحال پر چاوش اولو کا کہنا تھا کہ افغانستان میں انسانی اور سکیورٹی بحران کے مضمرات پوری دنیا پر نمودار ہوں گے، اس لئے عالمی برادری کو مل کر جلد اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے۔
ترکی کو خدشہ ہے کہ بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر یورپ کی طرف رخ کرنے والے افغان پناه گزیں جلد ہی اس کی سرحدوں پر دکھائی دیں گے جو اس کے موجودہ نظام پر بوجھ بڑھا دیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ہفتے ہی اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین، فلیپو گرانڈی نے ترکی کے چار روزہ دورے میں چالیس لاکھ کے قریب شامی پناہ گزینوں کو پناہ دینے پر ترک حکومت کی تعریف کی تھی۔
یاد رہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت ترکی کو شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے عوض کئی ارب ڈالر کی مالی امداد ملتی ہے۔
یورپی یونین کے کچھ سربراہان پہلے ہی اسی ڈیل میں افغان مہاجرین کو بھی شامل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، مہاجرین کو اپنے ملک سے قریب ترین مقام پر ہی ٹھہرایا جانا چاہیے۔
دوسری جانب ترکی کی حکومت، حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کی جانب سے اس کی پناہ گزیں پالیسی پر شدید تنقید کی زد میں ہے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ عالمی برادری پناہ گزینوں کا بوجھ ترکی پر ڈال رہی ہے اور یورپی یونین کے ساتھ معاہدہ کسی عام لین دین سے بڑھ کر نہیں جس میں یورپی یونین خود کو مہاجرین کی آمد سے بچانے کے لئے ترکی کو بس کچھ رقم دے رہی ہے۔
معاہدے میں افغان مہاجرین کی شمولیت پر ترکی کو آمادہ کرنے کے لئے یورپی یونین کے اعلیٰ حکام کا وفد گزشتہ ہفتے ہی انقرہ گیا تھا۔ تاہم، اس ملاقات میں ترکی نے واضح کیا کہ وہ مہاجرین کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا اور یورپی یونین اب یہ بوجھ بٹانے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا۔
اس صورتحال پر بعض ماہرین کا تجزیہ ہے کہ ترکی یورپی یونین سے مزید رقم چاہتا ہے۔ تاہم، بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سول اوزیل کا کہنا ہے کہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے ترک صدر رجب طیب اردگان کے لئے اب محض امداد کے وعدے کافی نہیں ہونگے۔
مزید سہولیات جس میں ترک شہریوں کے لئے یورپ میں بغیر ویزہ آمد جیسی ترغیبات شامل ہوسکتی ہیں، ایسے کسی معاہدے کو ممکن بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں مگر یورپی یونین اس کے لئے آمادہ نہیں ہوگی۔
ترک شہریوں کے لئے بغیر ویزہ یورپ کے سفر کی اجازت شامی مہاجرین پر کی گئی ڈیل کا بھی حصہ تھی مگر یورپی یونین کے بعض ارکان کی مخالفت کے باعث آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔