ترکی کی وزارتِ خارجہ نے ایک ٹوئٹ ’لائک‘ کرنے پر امریکی سفیر کو طلب کر لیا ہے۔
ترک صحافی ارگن باباہن نے پانچ اکتوبر کو ایک ٹوئٹ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ترکی کے لوگ ایک ایسے سیاسی دور کے لیے تیار ہو جائیں جو ترک نیشنل پارٹی کے رہنما کے بغیر ہوگا۔
صحافی کے اس ٹوئٹ کو ہفتے کے روز امریکی سفارت خانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ’لائک‘ کیا گیا اور بعد ازاں غلطی کا احساس ہونے پر سفارت خانے نے اس پر ایک معذرت نامہ بھی جاری کیا۔
امریکی سفارت خانے نے ٹوئٹ لائک کرنے کے عمل کو غیر دانستہ غلطی قرار دیا ہے۔ البتہ سفارت خانے کی جانب سے معذرت کے باوجود ترک وزارتِ خارجہ نے انقرہ میں تعینات امریکہ کے سفیر جیفری ہوونیئر کو اتوار کو طلبی کا نوٹس جاری کیا ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق صحافی ارگن باباہن ترکی میں مطلوب ملزم ہیں۔ جن پر الزام ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو 2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث تھے۔
خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق اس ٹوئٹ کو ’لائک‘ کرنے کا زیادہ تر لوگوں نے یہ مطلب نکالا کہ ٹوئٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قوم پرست جماعت کے رہنما دیولت باہچلے جلد مر سکتے ہیں۔
دیولت باہچلے کی جماعت ترک صدر رجب طیب ایردوان کی اتحادی ہے۔ امریکی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے مبینہ طور پر باہچلے کے خلاف ٹوئٹ کو ’پسند‘ کرنے پر دونوں جماعتوں کا سخت ردعمل آیا ہے۔
دوسری جانب ترکی کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی اس عمل کو ملکی پارلیمان کی توہین قرار دیا ہے۔
امریکی سفیر کی ترک وزارتِ خارجہ میں طلبی کے بعد امریکی سفارت خانے نے دوبارہ معافی نامہ جاری کیا ہے۔ جس میں میں کہا گیا ہے کہ امریکہ خود کو ارگن باباہن سے منسلک نہیں کرتا اور نہ ہی ان کی کسی ٹوئٹ یا کسی بھی مواد سے اتفاق کرتا ہے۔
سفارت خانے کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ ہم اپنی اس غلطی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات شام کی پالیسی پر تناؤ کا شکار ہیں۔ ترکی اور امریکہ کے درمیان شام میں ’سیف زون‘ قائم کرنے پر اختلافات ہیں۔