امریکی سفارت کار کا دورہ ترکی

امریکی سفارت کار کا دورہ ترکی

اگرچہ ترکی کے وزیرِ خارجہ ڈاوٹوگلو نے اس امکان کو مسترد کر دیا ہے کہ ترکی ان پابندیوں پر عمل در آمد کرے گا جو امریکہ کی قیادت میں عائد کی گئی ہیں، لیکن امریکی مندوب ویلیئم برنز انقرہ پہنچے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ترکی اپنا ارادہ بدل دے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ویلیئم برنز ترکی کے دورے پر ہیں۔ ان کے دورے کا مقصد ترکی پر مزید دباؤ ڈالنا ہے تا کہ ترکی ایران کے متنازع نیوکلیئر توانائی کے پروگرام کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں پرعمل کرے۔ تاہم امریکہ کی قیادت میں ایران پر جو نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ترکی بدستور ان کے خلاف ہے۔

اگرچہ ترکی کے وزیرِ خارجہ ڈاوٹوگلو نے اس امکان کو مسترد کر دیا ہے کہ ترکی ان پابندیوں پر عمل در آمد کرے گا جو امریکہ کی قیادت میں عائد کی گئی ہیں، لیکن امریکی مندوب ویلیئم برنز انقرہ پہنچے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ترکی اپنا ارادہ بدل دے۔

ترکی ان پابندیوں پر توعمل درآمد کرتا ہے جو اقوامِ متحدہ نے ایران کے خلاف عائد کی ہیں لیکن اس نے ان دوسری پابندیوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے جو امریکہ اور یورپی یونین نے عائد کی ہیں۔

صیمحی آئیڈز ترکی کے اخبار میلیت کے لیے لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈپٹی سکریٹری برنز سے پہلے کئی اور اعلیٰ امریکہ عہدے دار ترکی کا دورہ کر چکے ہیں۔ ’’ترکی نے صاف طور سے کہہ دیا ہے کہ وہ ایران پر پابندیوں کے حق میں نہیں ہے۔ لہٰذا اب امریکہ اعلیٰ ترین سطح پر کوشش کر رہا ہے کہ ترکی اپنا موقف تبدیل کر لے۔ اس طرح ترکی پر دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن اس طرح اصل مسئلہ حل نہیں ہوتا اور ترکی کو دونوں ملکوں کے درمیان بڑی احتیاط سے قدم اٹھانا پڑتا ہے ۔‘‘


ترکی کا کہنا ہے کہ اگر اس نے ان اضافی پابندیوں پر عمل کیا جن میں ایران کے توانائی کے شعبے کو نشانہ بنایا گیا ہے تو اس سے ایران کے لوگوں کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔

لیکن ترکی اور ایران کے امور کے ماہر مہرداد عمادی کہتے ہیں کہ ترکی کی طرف سے امریکی دباؤ کی مزاحمت کے نتیجے میں ترکی کی کمپنیوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔

گذشتہ 16 مہینوں میں یہ معاملہ بہت اہم ہو گیا ہے۔ اب کچھ تجارت متحدہ عرب امارات سے ترکی منتقل کر دی گئی ہے کیوں کہ یورپی یونین اور امریکی عہدے داروں نے متحدہ عرب امارات پر دباؤ ڈالا ہے۔

ترک بینکوں کو بھی فائدہ ہو رہا ہے۔ وہ ہر مہینے ایک ارب ڈالر تک کی رقم تہران منتقل کر تے ہیں۔ ترکی کا سرکاری بینک حلک بینک ایران کے تیل کی برآمدات کی ادائیگی کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے خاص طور سے بھارت سے۔

چونکہ اس بینک کا کوئی دفتر امریکہ میں نہیں ہے اس لیے امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے خلاف امریکہ کے طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

قادر ہاس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سول اوزل کہتے ہیں کہ ترکی اپنے بینکوں کا ساتھ دے رہا ہے۔’’امریکہ کے محکمۂ خزانہ کے طرف سے ترکی پر بہت دباؤ ڈالا گیا ہے کہ یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ لیکن حلک بینک سرکاری بینک ہے۔ لہٰذا ترکی اس دباؤ کی مزاحمت کر رہا ہے اور تعاون نہیں کر رہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی چاہتا ہے کہ یہ دہرا کھیل جاری رکھے اور امریکہ کے ساتھ اپنا اتحاد بھی باقی رکھے۔‘‘

اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں اختلافات کے باوجود علاقے میں ترکی اور امریکہ کی پالیسیوں میں ہم آہنگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ سال امریکہ نے نیٹو کے میزائل شکن نظام میں جس کا ہدف ایران ہے شرکت پر رضامندی ظاہر کی۔ اس اقدام کو اس بات کی اہم علامت سمجھا گیا کہ ترکی اپنے مغربی اتحادیوں کا وفادار رہنا چاہتا ہے اور اپنے ایرانی ہمسائے کے خلاف ہے۔

ترکی کے سفارتی نامہ نگار آئیڈز کہتے ہیں کہ امریکہ یا ترکی میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ایران پر پابندیوں کے معاملے پر ان کے تعلقات خراب ہوں۔ ’’میرے خیال میں امریکہ یہ نہیں چاہے گا کہ علاقے میں اس نازک مرحلے پر ترکی کے ساتھ کوئی جھگڑا مول لے۔ امریکہ نے حال ہی میں عراق سے اپنی فوجیں نکالی ہیں اور ایران میں صورت حال روز بروز خراب ہو رہی ہے اور شام میں بھی تصادم جاری ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں مفادات میں توازن کو سامنے رکھا جائے گا اور مفاہمت کی کوئی راہ نکالی جائے گی۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، اور ان معاملات پر وہ آپس میں کوئی قضیہ کھڑا کرنا نہیں چاہیں گے۔‘‘

ترکی مسلسل یہ کوشش کر رہا ہے کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا کوئی سفارتی حل نکل آئے۔ ترکی کے وزیرِ خارجہ نے پچھلے ہفتے تہران کے دورے کے بعد کہا کہ ترکی اس بحران کے حل کے لیے ایک بین الاقوامی اجتماع کی میز بانی کر سکتا ہے۔

لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ایسے آثار بہت کم ہیں کہ کوئی مثبت پیش رفت ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ترکی کے مغربی اتحادیوں کے طرف سے ایران پر مزید بین الاقوامی پابندیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس کے ساتھ ہی ترکی پر ان پر عمل در آمد کے لیے دباؤ بھی ڈالا جاتا رہے گا۔