صدر براک اوباما نے غزہ کے خلاف اسرائیل کی کارروائیوں کا پر زور دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے ۔
استنبول —
غزہ کے سنگین بحران سے ترکی اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں ۔ ترکی کا مطالبہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کو لگام دے۔
پیر کے روز استنبول میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، ترک وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے غزہ میں جاری اسرائیل کے فوجی آپریشن پر کڑی نکتہ چینی کی ۔ انھوں نے کہا’’جو لوگ اسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑتےہیں وہ مسلمانوں کے قتلِ عام کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اور انہیں غزہ میں بچوں کا وحشیانہ قتل نظر نہیں آتا ۔ اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ اسرائیل دہشت گرد ملک ہے، اور اس کی کارروائیاں سرا سر دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں۔‘‘
مسٹر اردوان نے گذشتہ ہفتے قاہرہ کے دورے میں اسی قسم کے بیانات دیے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے غزہ کے خلاف اسرائیل کی کارروائیوں کا پر زور دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے ۔
ترکی میں بعض سیاسی مبصرین نے کہا ہے کہ ان دونوں لیڈروں کے اتنے مختلف خیالات سے ان کے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
لیکن استنبول میں قائم بین الاقوامی تعلقات پر تحقیق کرنے والے انسٹی ٹیوٹ Edam کے سربراہ سینان اولگن کہتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ ہم وزیرِ اعظم کے تند و تیز بیانات سے بالا تر ہو کر دیکھیں۔
’’زور دار بیانات کے ذریعے، ترکی کے وزیرِ اعظم نے اس موقعے کو اسرائیل پر تنقید کا اعادہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی، مصر اور قطر کے ساتھ، ترکی نے حماس کی قیادت کے ساتھ مل کر علاقے کے مستقبل کے بارے میں، اور اس بحران کو ختم کرنے کے طریقے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کے صدر اور ترکی کے وزیرِ اعظم کے درمیان بڑا مضبوط تعلق قائم ہو گیا ہے۔ دونوں لیڈر، خاص طور سے شام کے تنازع کے بارے میں، باقاعدگی سے رابطہ قائم رکھتے ہیں اور دونوں شام کے صدر بشار الاسد کے مخالفین کے حامی ہیں۔
لیکن مسٹر اردوان نے، اسرائیل پر سخت الفاظ میں تنقید کے ساتھ ساتھ، اشاروں کنایوں میں امریکہ اور یورپی یونین پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو لگام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ترک اخبار’ملت‘ کے سفارتی نامہ نگار سمیع ادز کہتے ہیں کہ امریکہ اور ترکی کے لیڈروں کے درمیان اتنے قریبی تعلقات کی وجہ سے یہ امید بندھی تھی کہ امریکہ غزہ کے معاملے میں اسرائیل کے بارے میں زیادہ غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرے گا۔
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ کے رویے کے بارے میں سخت مایوسی ہوئی ہے۔ لوگوں کو امید تھی کہ اوباما کا بیان زیادہ متوازن ہوگا۔ اس رویے سے تو اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں، امریکہ کی خارجہ پالیسی واشنگٹن میں نہیں بلکہ تل ابیب اور یروشلم میں بنائی جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ ترکی اور امریکہ فی ا لحال شام کے جھگڑے میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لہٰذا وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ اسرائیل کا معاملہ ایک خاص حد سے آگے بڑھے ۔ لہٰذا اب اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسرائیل غزہ میں کیا کرتا ہے۔‘‘
فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملک غزہ کے جھگڑے میں مختلف نقطہ ہائے نظر کو جگہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ بحران اور زیادہ گہرا ہوا یا اگر اس نے اور طول کھینچا تو مستقبل میں ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کار اولگن کہتے ہیں۔
’’اگر انقرہ اپنے زور دار بیان جاری رکھتا ہے، تو پھر اس سے امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات کے لیے مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے کیوں کہ پھر امریکی انتظامیہ پر بھی زبردست دباؤ پڑے گا کہ وہ ترکی کے موقف پر تنقید کرے ۔ تا ہم، غزہ کے مسئلے پر ترکی اور امریکہ کے درمیان کسی ممکنہ بحران کا خطرہ ختم ہو سکتا ہے اگر ترکی حماس کو مصالحت کے لیے اور جارحیت کو روکنے کے لیے آمادہ کر سکے۔ فی الحال ترکی کے سفارتکار یہی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
منگل کے روز ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد داوت اوغلو عرب لیگ کے ایک اقدام کے سلسلے میں غزہ جانے والے ہیں ۔ ترکی فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے ۔ یو ں تو پیشگوئی یہ کی جا رہی ہے کہ داوت اوغلو بھی اردوان کی طرح اسرائیل پر سخت تنقید کریں گے ۔ لیکن توقع یہ ہے کہ پسِ پردہ وہ اس بڑھتے ہوئے بحران کا حل تلاش کرنے کی سخت کوشش کریں گے۔
پیر کے روز استنبول میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، ترک وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے غزہ میں جاری اسرائیل کے فوجی آپریشن پر کڑی نکتہ چینی کی ۔ انھوں نے کہا’’جو لوگ اسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑتےہیں وہ مسلمانوں کے قتلِ عام کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اور انہیں غزہ میں بچوں کا وحشیانہ قتل نظر نہیں آتا ۔ اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ اسرائیل دہشت گرد ملک ہے، اور اس کی کارروائیاں سرا سر دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں۔‘‘
مسٹر اردوان نے گذشتہ ہفتے قاہرہ کے دورے میں اسی قسم کے بیانات دیے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے غزہ کے خلاف اسرائیل کی کارروائیوں کا پر زور دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے ۔
ترکی میں بعض سیاسی مبصرین نے کہا ہے کہ ان دونوں لیڈروں کے اتنے مختلف خیالات سے ان کے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
لیکن استنبول میں قائم بین الاقوامی تعلقات پر تحقیق کرنے والے انسٹی ٹیوٹ Edam کے سربراہ سینان اولگن کہتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ ہم وزیرِ اعظم کے تند و تیز بیانات سے بالا تر ہو کر دیکھیں۔
’’زور دار بیانات کے ذریعے، ترکی کے وزیرِ اعظم نے اس موقعے کو اسرائیل پر تنقید کا اعادہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی، مصر اور قطر کے ساتھ، ترکی نے حماس کی قیادت کے ساتھ مل کر علاقے کے مستقبل کے بارے میں، اور اس بحران کو ختم کرنے کے طریقے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کے صدر اور ترکی کے وزیرِ اعظم کے درمیان بڑا مضبوط تعلق قائم ہو گیا ہے۔ دونوں لیڈر، خاص طور سے شام کے تنازع کے بارے میں، باقاعدگی سے رابطہ قائم رکھتے ہیں اور دونوں شام کے صدر بشار الاسد کے مخالفین کے حامی ہیں۔
لیکن مسٹر اردوان نے، اسرائیل پر سخت الفاظ میں تنقید کے ساتھ ساتھ، اشاروں کنایوں میں امریکہ اور یورپی یونین پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو لگام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ترک اخبار’ملت‘ کے سفارتی نامہ نگار سمیع ادز کہتے ہیں کہ امریکہ اور ترکی کے لیڈروں کے درمیان اتنے قریبی تعلقات کی وجہ سے یہ امید بندھی تھی کہ امریکہ غزہ کے معاملے میں اسرائیل کے بارے میں زیادہ غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرے گا۔
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ کے رویے کے بارے میں سخت مایوسی ہوئی ہے۔ لوگوں کو امید تھی کہ اوباما کا بیان زیادہ متوازن ہوگا۔ اس رویے سے تو اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں، امریکہ کی خارجہ پالیسی واشنگٹن میں نہیں بلکہ تل ابیب اور یروشلم میں بنائی جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ ترکی اور امریکہ فی ا لحال شام کے جھگڑے میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لہٰذا وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ اسرائیل کا معاملہ ایک خاص حد سے آگے بڑھے ۔ لہٰذا اب اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسرائیل غزہ میں کیا کرتا ہے۔‘‘
فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملک غزہ کے جھگڑے میں مختلف نقطہ ہائے نظر کو جگہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ بحران اور زیادہ گہرا ہوا یا اگر اس نے اور طول کھینچا تو مستقبل میں ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کار اولگن کہتے ہیں۔
’’اگر انقرہ اپنے زور دار بیان جاری رکھتا ہے، تو پھر اس سے امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات کے لیے مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے کیوں کہ پھر امریکی انتظامیہ پر بھی زبردست دباؤ پڑے گا کہ وہ ترکی کے موقف پر تنقید کرے ۔ تا ہم، غزہ کے مسئلے پر ترکی اور امریکہ کے درمیان کسی ممکنہ بحران کا خطرہ ختم ہو سکتا ہے اگر ترکی حماس کو مصالحت کے لیے اور جارحیت کو روکنے کے لیے آمادہ کر سکے۔ فی الحال ترکی کے سفارتکار یہی مقصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
منگل کے روز ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد داوت اوغلو عرب لیگ کے ایک اقدام کے سلسلے میں غزہ جانے والے ہیں ۔ ترکی فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے ۔ یو ں تو پیشگوئی یہ کی جا رہی ہے کہ داوت اوغلو بھی اردوان کی طرح اسرائیل پر سخت تنقید کریں گے ۔ لیکن توقع یہ ہے کہ پسِ پردہ وہ اس بڑھتے ہوئے بحران کا حل تلاش کرنے کی سخت کوشش کریں گے۔