امریکہ نے کہا ہے کہ پیر کے روز ترک افواج اور امریکی حمایت یافتہ کُردوں کی قیادت والے اتحاد سے وابستہ دستوں کے درمیان جھڑپیں قابل قبول نہیں اور تمام فریق پر زور دیا ہے کہ لڑائی ’’فوری طور پر‘‘ ختم کریں۔
شام کے قصبے جرابلوس کے جنوب میں ہونے والی حالیہ لڑائی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر، پینٹاگان پریس سکریٹری پیٹر کوک نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’پہلے ہی بہت سے فریق الجھے ہوئے ہیں‘‘۔
آج کارروائی کا چھٹا روز ہے، اور ترک فوج کے ہمراہ اُس کے شامی باغی اتحادیوں کی لڑائی کا مقصد امریکہ کی اتحادی کُرد افواج اور داعش کے شدت پسندوں کو جرابلوس سے باہر نکالنا ہے، جس کی سرحد ترکی کے ساتھ ملتی ہے۔
کوک نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائیوں میں امریکہ ترکی کی حمایت پر تیار ہے، لیکن ساتھ ہی وہ کُرد قیادت والی افواج کا مکمل طور پر حامی ہے، تاکہ شدت پسند گروپ کو شکست دی جاسکے۔
شامی باغی، جن کی حمایت ترکی کرتا ہے، علاقے میں کرد قیادت والی افواج سے کم از کم چار دیہات اور ایک قصبے کا کنٹرول حاصل کرنا ہے، ایسے میں جب اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ ترک فضائی حملوں میں کم از کم 35 شہری ہلاک ہوئے۔
ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغیوں نے شمالی شام میں کرد فورسز کے زیر کنڑول چار گاؤں پر قبضہ کر لیا ہے جب کہ اطلاعات کے مطابق اس دوران اس علاقے میں ترکی کی فضائی کارروائیوں سے 35 عام شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
برطانیہ میں قائم تنظیم 'سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کا کہنا کہ اتوار کو ہونے والے حملوں میں جبل کوسا کے گاؤں میں 20 افراد مارے گئے جبکہ 50 افراد اس علاقے میں زخمی ہوئے جو سریئن ڈیموکریٹک فورسز کی حامی ملیشاء کے قبضے میں ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک قریبی قصبے ال ارمانا میں ہوئی ایک دوسری فضائی کارروائی میں 15 عام شہری ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔
ترک فوج نے اتوار کو کہا کہ شمالی شام میں اس کی طرف سے کی جانی والی فضائی کارروائیوں میں کرد عسکریت پسند ہلاک ہوئے تاہم وہ اس بات سے انکار کرتی ہے کہ اس کارروائی میں عام شہری بھی ہلاک ہو ئے۔
ترک فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام شہریوں کا تحفظ کرے۔
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولیہ کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے کرد عسکریت پسند ترکی میں سرگرم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) اور سرئین ڈیمو کریٹک ( پی وائی ڈی ) " دہشت گرد ارکان" تھے۔
ترک فوج اپنے اتحادی شامی باغیوں کے ساتھ مل کر گزشتہ پانچ روز سے ترکی کی سرحد کے قریب واقع شام کے سرحدی قصبے جرابلس سے امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فورسز اور شدت پسند گروپ داعش کے عسکریت پسندوں کو بے دخل کرنے کے لیے مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اتوار کو ایک جلسہ سے خطاب میں کہا کہ ترکی کی حمایت یافتہ فورسز کی طرف سےجرابلس پر داعش کے کنٹرول کو ختم کرنے کے بعد یہاں کے مکین اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔
انھوں نے جرابلس سے داعش کے عسکریت پسندوں کو باہر نکالنے پر اپنی مسلح افواج کو سراہتے ہوئے کہا کہ "وہ سرحد پار سے ہم پر حملے کر رہے تھے ، اب وہ بھاگ رہے ہیں"۔
اردوان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ فرار ہونے والے دہشت گردوں کا پیچھا کیا جائے گا۔
شام میں ترکی کی فوجی مداخلت سے شام کی خانہ جنگی میں انقرہ کے کردار میں ڈرامائی طور اضافہ ہو گیا ہے۔
شمالی شام میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد مغربی ممالک کی اس بارے میں تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ ترکی امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فورسز 'کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس' ( وائی پی جی) کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔
جب کہ امریکہ ’وائی پی جی‘ کو داعش کے خلاف لڑائی میں اپنا سب سے زیادہ موثر اتحادی قرار دیتا ہے جب کہ ترکی کا مطالبہ ہے کہ ’وائی پی جی‘ اس سرحدی علاقے سے نکل جائے جو داعش کے عسکریت پسندوں سے چھینا گیا ہے۔