بھارت کی سپریم کورٹ سے 'ری پبلک ٹی وی' کے مالک اور ایڈیٹر انچارج ارنب گوسوامی کی ضمانت پر رہائی کے بعد دیگر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا ہے۔
ممبئی کی پولیس نے 2018 کے خود کشی کے ایک معاملے میں ارنب گوسوامی کو رواں ماہ چار نومبر کو گرفتار کیا تھا۔ ان پر ایک انٹیریئر ڈیزائنر اور اس کی والدہ کو خود کشی پر اکسانے کا الزام ہے۔
جسٹس چندر چوڑ اور اندرا بنرجی کے بینچ نے 11 نومبر کو ارنب گوسوامی کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی تو ہم شخصی آزادی کے انکار سے تباہی کے راستے پر جائیں گے۔
عدالت نے ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے گوسوامی کو ضمانت نہ دینے اور نچلی عدالت میں جانے کی ہدایت پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی ہائی کورٹس جو کہ آئینی عدالتیں ہیں، شخصی آزادی کے معاملے میں کچھ زیادہ نہیں کر رہی ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اویس سلطان خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ارنب گوسوامی کی شخصی آزادی کا تو احترام کیا لیکن حکومت کے فیصلوں کے خلاف ٹوئٹ کرنے اور ایسی ہی معمولی باتوں پر ملک سے غداری کے الزام میں جیلوں میں بند دیگر صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور طلبہ کی شخصی آزادی کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سینئر وکیل دشینت دوے نے ارنب گوسوامی کے معاملے پر بغیر باری کے سماعت کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالت اپنی پسند کے تحت سماعت کر رہی ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے سیکریٹری جنرل کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے۔
SEE ALSO: بھارتی عدلیہ اور متنازع فیصلے، کیا امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون ہیں؟ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد طویل مدت سے جیلوں میں بند ہیں۔ مگر ان کے معاملات سماعت کے لیے لسٹ میں شامل نہیں کیے جاتے۔
انہوں نے اپنے مکتوب میں اس رویے پر سخت احتجاج کیا۔
ایک اسٹینڈ اپ کامیڈین کونال کامرا نے ارنب کی رہائی پر ایک ٹوئٹ کی۔ جسے عدالت نے اپنی توہین قرار دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کامرا کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی ہے۔
کونال کامرا کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو عدالت سے معافی مانگیں گے اور نہ ہی اپنی ٹوئٹ واپس لیں گے۔
ان کے بقول انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کہی ہے۔ اگر عدالت انہیں سزا دیتی ہے تو وہ اسے قبول کریں گے۔
متعدد انگریزی روزناموں نے ارنب گوسوامی کی رہائی کا خیرمقدم کیا ہے لیکن دوسرے گرفتار صحافیوں کی شخصی آزادی کے احترام کی بھی بات کہی ہے۔
ایک نیوز پورٹل ‘ستیہ ہندی ڈاٹ کام’ سے وابستہ سینئر صحافی مکیش کمار کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ جس طرح ارنب کے معاملے میں دلچسپی دکھا رہی ہے اور دوسروں کے معاملات سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی تجزیہ کار اس پر دوہرا رویہ اپنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔
تجزیہ کار سوکنیا شانتا کا کہنا ہے کہ ارنب کی ضمانت کے بعد صدیق کپن کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت داخل کی گئی لیکن عدالت نے 16 نومبر کی تاریخ دے دی۔
صدیق کپن کو 6 اکتوبر کو ہاتھرس جاتے ہوئے اتر پردیش پولیس نے متھرا میں گرفتار کیا تھا۔ وہ ہاتھرس اجتماعی زیادتی و قتل معاملے پر اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کے مقصد سے جا رہے تھے۔
رپورٹس کے مطابق ایک ماہانہ جریدے 'کشمیر نیریٹر' کے صحافی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ایک مضمون لکھنے پر 31 اگست 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی وہ جیل میں ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ‘شیلانگ ٹائمز’ کے ایڈیٹر پیٹریشیا موکھم کو ایک فیس بک پوسٹ پر گرفتار کیا گیا۔ میگھالیہ ہائی کورٹ نے 10 نومبر کو ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔
نیوز پورٹل 'دی وائر' نے ایسے 9 صحافیوں کی ایک فہرست شائع کی ہے جن کو مختلف دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ مگر ان کو ضمانت نہیں مل رہی ہے۔
ان میں صدیق کپن کے علاوہ منی پور کے ایک صحافی کشور چندر وانگ کھیم، پرشانت کنوجیہ، راجب شرما، نریش کھوہال، راہول کلکرنی، راجیو شرما اور سیوانگ ریگزین کے نام شامل ہیں۔
ان لوگوں کو مختلف مقامات سے مختلف دفعات کے تحت الگ الگ وقتوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔
تجزیہ کار عصمت آرا کہتی ہیں کہ گزشتہ دو برس میں پونے کی پولیس اور نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ایک درجن سے زائد انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلا کو گرفتار کیا ہے۔
ان کے مطابق ارنب گوسوامی کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے فوری طور پر اِن لسٹ کر دی گئی اور انہیں 6 روز کے اندر ضمانت دے دی گئی۔ جب کہ کبیر کلا منچ کے کارکن ہائی کورٹ میں واحد سماعت کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔ کبیر کلا منچ کے، ساگر گورکھے اور رمیش گائیچور کو 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ صرف صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے معاملات کی سماعت ہی میں تاخیر نہیں کی جاتی بلکہ یہ بات ‘انڈین کریمنل جسٹس’ کی ایک عام بات ہے۔
بعض تجزیہ کار بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی نیم خود مختاری تفویض کرنے والی دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلوں کا بھی ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عدالت ان پر سماعت میں تاخیر سے کام لے رہی ہے۔
ایک سینئر تجزیہ کار آلوک موہن کا کہنا ہے کہ شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے والے کارکنوں اور طلبہ کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا لیکن ان کی درخواستِ ضمانت پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ لیکن ارنب گوسوامی کی درخواست پر فوری سماعت ہوئی اور انہیں رہا کر دیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے لاک ڈاؤن کے دوران یومیہ مزدوروں کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں اٹھایا تھا۔ لیکن عدالت نے اس پر فوری سماعت سے انکار کیا۔ جب کہ پال گھر میں دو سادھوؤں کی ایک ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے معاملے میں مبینہ جانب دارانہ رپورٹنگ کے ایک معاملے میں ارنب گوسوامی کی درخواست پر عدالت عظمیٰ نے فوری کارروائی کی اور ان کی گرفتاری پر پابندی لگا دی۔
آلوک موہن کہتے ہیں کہ ارنب گوسوامی چوں کہ حکمران طبقے کے قریب ہیں۔ اس لیے ان کے معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن دوسرے صحافیوں کی شخصی آزادی کا کوئی احترام نہیں کیا جاتا۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اویس سلطان خان اس بات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے متعدد طلبہ اور شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں متعدد افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن ان کی ضمانت کی درخواستوں پر لمبی لمبی تاریخیں دے دی جاتی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم میران حیدر کو یکم اپریل کو، آصف اقبال تنہا کو 16 مئی کو اور شفا الرحمن کو 26 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ لوگ سی اے اے کے خلاف چلنے والی تحریک میں پیش پیش تھے۔ ان پر دہلی فسادات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے عمر خالد کو 13ستمبر کو، نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا کو 23 مئی کو اور شرجیل امام کو 28 جنوری کو گرفتار کیا گیا۔
ان لوگوں پر بھی غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے انتہائی سخت قانون یو اے پی اے اور غداری کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
عمر خالد، نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا پر دہلی فسادات کو بھڑکانے کا بھی الزام ہے۔
کلیتا اور نروال کو عدالتوں نے ضمانت دے دی ہے لیکن دہلی پولیس نے اسے چیلنج کر دیا ہے اور اس طرح وہ اب بھی جیل میں ہیں۔
شمال مشرقی دہلی کی سابق کونسلر عشرت جہاں اور موجودہ کونسلر طاہر حسین کو دہلی فسادات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔
عشرت جہاں کو ضمانت مل گئی ہے۔ ان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ جیل میں ان پر تشدد کیا گیا۔ تاہم جیل کے اہلکار اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کو فساد بھڑکانے کے الزام میں پانچ مارچ کو گرفتار کیا گیا۔ دہلی کی ایک عدالت نے ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کی ایک ایم بی اے گریجویٹ گلفشاں فاطمہ کو 9 اپریل کو سی اے اے مخالف تحریک میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
ان پر بھی یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے۔ 21 ستمبر کی سماعت میں انہوں نے جیل میں ذہنی ٹارچر کرنے کا الزام لگایا۔ لیکن تہاڑ جیل کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے غلط رویے پر ان کو تین بار سزا دی گئی ہے۔ 21 اکتوبر کی سماعت میں ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔
SEE ALSO: بھارت: معروف صحافی ارنب گوسوامی گرفتاردہلی پولیس نے ان لوگوں کے علاوہ سماجی کارکن خالد سیفی اور دیگر کارکنوں کو بھی سی اے اے مخالف تحریک چلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
اویس سلطان خان اور آلوک موہن کے خیال میں مذکورہ افراد کو سی اے اے مخالف تحریک چلانے کی وجہ سے دہلی فساد سے منسلک کر دیا گیا ہے تاکہ دوبارہ کوئی ایسی تحریک چلانے کی جرات نہ کر سکے۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن اور ایک غیر سرکاری تنظیم 'انہد' کی بانی شبنم ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ دہلی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آتی ہے اور وہی سب کچھ کر رہی ہے۔ جس کی ہدایت وزیر داخلہ کی جانب سے اس کو مل رہی ہے۔
لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف دہلی فسادات میں ملوث ہونے کے کافی شواہد موجود ہیں۔
پولیس سیاسی دباؤ کے تحت کام کرنے کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔