امریکی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کے پیشِ نظر فیس بک اور یو ٹیوب نے انتخابات میں کامیابی کے دعوے پر مبنی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ویڈیو ہٹا دی ہے جب کہ ٹوئٹر نے بھی 12 گھنٹوں کے لیے صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا ہے۔
بدھ کو صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپٹل ہل پر چڑھائی کے دوران صدر ٹرمپ نے ایک ویڈیو بیان میں ایک بار پھر بغیر ثبوت کے صدارتی انتخابات کو فراڈ قرار دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے کیپٹل ہل میں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کرنے والے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ گھروں کو واپس چلے جائیں۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات میں ووٹرز فراڈ کے اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ٹوئٹر نے نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر صدر ٹرمپ کی اس ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرنے کا آپشن ختم کر دیا تھا۔
ٹوئٹر نے انتخابات میں کامیابی کے دعوؤں سے متعلق صدر ٹرمپ کی ایک اور ٹوئٹ کے بعد بدھ کی رات اُن کا اکاؤنٹ شہری سالمیت کے قوانین کی خلاف ورزی کے تحت 12 گھنٹوں کے لیے بلاک کرتے ہوئے مستقل طور پر بند کرنے کی بھی تنبیہہ کی ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے سیکڑوں حامی اس وقت امریکی پارلیمنٹ کی عمارت کیپٹل ہل میں گھس گئے تھے جب صدارتی انتخابات میں الیکٹورل کالج کے نتائج کی توثیق کے لیے کانگریس کے اراکین جمع تھے۔
فیس بک کے شعبہ انٹیگریٹی کے نائب صدر گائے روزون نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ صدر ٹرمپ کی ویڈیو تشدد کو کم کرنے کے بجائے اسے بڑھاوا دینے کا سبب بن رہی تھی۔
گوگل کی ملکیتی ویڈیو ویب سائٹ 'یو ٹیوب' نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی تین نومبر 2020 کے انتخابات سے متعلق دعوؤں پر مبنی ویڈیو اس کی پالیسی کے منافی تھی۔
خیال رہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل ہی سوشل میڈیا کمپنیوں پر یہ دباؤ بڑھ رہا تھا کہ وہ قیاس آرائیوں پر مبنی مواد کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
SEE ALSO: عالمی رہنماؤں کی واشنگٹن ڈی سی میں ہنگامہ آرائی کی مذمتصدر ٹرمپ اور اُن کے حامیوں کی جانب سے صدارتی انتخابات میں بغیر ثبوت کے دھاندلی اور ووٹرز فراڈ کے الزامات ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر شیئر کیے جاتے رہے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم 'اینٹی ڈیفیمیشن لیگ' ںے بھی سوشل میڈیا کمپنیوں پر زور دیا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے اکاؤنٹس معطل کر دیں۔
'فیس بک' کے سابق سیکیورٹی چیف ایلکس اسٹیموس نے کہا کہ ٹوئٹر اور فیس بک کو اب صدر کے اکاؤنٹ معطل کر دینے چاہئیں۔ اُن کے بقول اب معاملہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ صرف انتباہی نوٹس لگانے سے کام نہیں چلے گا۔
وائٹ ہاؤس نے اس معاملے پر مؤقف دینے کے لیے کی گئی درخواست پر فوری طور پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔