پاناما دستاویزات سے متعلق دائر درخواستوں کے فیصلے کے بعد حزب مخالف کی دو بڑی جماعتوں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل تین ججوں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن نے وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کی بیرون ملک جائیدادوں اور سرمائے کی منتقلی سے متعلق حقائق جاننے کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا۔
جب کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے مقدمے کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ ملک میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔
’’میں ساری پاکستانی قوم کی طرف سے نواز شریف کو کہتا ہوں کہ وہ استعفیٰ دے فوری طور پر استعفیٰ دے اور 60 دن تک جب تک یہ جوائنٹ تحقیقاتی ٹیم اپنا فیصلہ نہیں کرتی وہ تب تک فوری طور پر استعفیٰ دیں یہ کیوں دیں سب سے پہلے جیسا کہ آج کا فیصلہ آیا ہے کس طرح نواز شریف اس ملک کے سربراہ رہ سکتے ہیں۔ ان کے پاس کون سی اخلاقیات اتھارٹی رہ گئی ہے کیونکہ ان کی کریمنل تحقیقات ہوں گی۔‘‘
حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی ایک نیوز کانفرنس میں وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
’’میری نظر میں وزیراعظم (نواز شریف) کو اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیئے گو کہ میں انہیں جانتا ہوں کہ وہ آخری دم تک ( استعفیٰ) نہیں دیں گے ہماری جدو جہد تب تک جاری رہے گی۔‘‘
تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں اُن کی جماعت کے موقف کو تسلیم کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ عدالت کے حکم کے مطابق وزیراعظم ’جے آئی ٹی‘ کے سامنے پیش ہوں گے۔
’’جو ہمارا موقف تھا، اُس کی تائید ہوئی۔۔۔ ہم نے چھ ماہ قبل (سپریم کورٹ) کو ایک خط لکھا تھا کہ (تحقیقات) کے لیے کمیشن بنایا جائے۔‘‘
اُدھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا۔