میانمار سے متعلق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہر نے کہا ہے کہ روس اور چین کی جانب سے میانمار کی فوجی جنتا کوفراہم کیے جانے والے جنگی طیارے شہریوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ ظالمانہ کارروائیوں کے خاتمے کے لیے انہیں ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے اقدامات کرے۔
اس عہدے پر آزاد حیثیت میں کام کرنے والے امریکہ کے سابق کانگریس مین تھامس اینڈوریوز نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں سربیا کو بھی ان تین ممالک میں شامل کیا گیا ہے جو میانمار کی فوج کو پچھلے سال اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مکمل معلومات ہیں کہ یہ ہتھیار شہریوں کے خلاف حملوں کے لیے استعمال ہوں گے۔
اینڈریوز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایسے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہیئں کہ شہریوں کی ہلاکتوں کے لیے ہتھیار اب میانمار منتقل نہ ہو سکیں۔
گزشتہ سال فوج نے بغاوت کے ذریعے ایک عشرے سے قائم کمزور جمہوریت کا خاتمہ کر نے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے خلاف جنم لینے والے ملک گیر احتجاج کو فوج نے طاقت کے اندھا دھند استعمال سے کچل دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے حوالے سے کہنا ہے کہ میانمار میں اب تک کم ازکم 1500 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں فوج اور مسلح مخالفین کے درمیان تنازعات کے نتیجے میں تین لاکھ سے زیادہ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
فوجی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہوں نے اقوام متحدہ پر یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا ہے کہ اس کی جانب سے مداخلت کی جا رہی ہے۔
اس رپورٹ پر ردعمل کے لیے میانمار کی فوج، روس اور سربیا کی وزارت خارجہ سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا ہے؛ جب کہ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے اس رپورٹ پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ "چین نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ تمام جماعتوں اور گروہوں کو ملک کے طویل مدتی مفادات کے لیے آگے بڑھنا چاہیے اور تضادات کو سیاسی بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
SEE ALSO: میانمارکی فوجی بغاوت ڈیڑھ ہزار سے زائد انسانی زندگیاں نگل گئی: اقوام متحدہاقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں نےمیانمار کی فوجی جنتا پر الزام لگایا ہے کہ وہ نسلی اقلیتوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف طاقت کا غیر متناسب استعمال کرتے ہوئے شہری علاقوں پر توپ خانے کااستعمال اور فضائی حملے کر رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روس نے فوجی حکمرانوں کو ڈرون، دو قسم کے لڑاکا طیارے، اور دو طرح کی بکتر بند گاڑیاں فراہم کی ہیں، جن میں ایک پر فضائی دفاعی نظام نصب ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین نے لڑاکا طیارے منتقل کیے ہیں جب کہ سربیا نے اسے راکٹ اور توپ خانے کے گولے فراہم کیے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں رکن ممالک سے کہا گیا تھا کہ وہ میانمار کی فوج کو ہتھیار منتقل نہ کریں۔ اینڈریوز کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کو اس پر پابند ی کروانی چاہیے۔
سربیا نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا جب کہ روس اور چین نےووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
چین نے میانمار میں تنازعات اور لڑائیوں کے خاتمے پر زور دیا ہے جب کہ روس ایسے وقت میں میانمار کے جنرلوں کا سفارتی اتحادی رہا ہے جب مغربی ممالک اسے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اینڈریوز نے کہا ہے کہ میانمار کی فوج کی تیل اور گیس کی آمدنی اور زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک سے عمارتی لکڑی، قیمتی پتھروں اور نایاب معدنیات کی خریداری پر بھی بین الاقوامی پابندیاں لگائی جائیں۔
انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ میانمار کے حکمران کمزور ہیں اور انہیں بین الاقوامی عزم کے ساتھ روکا جا سکتا ہے۔
اینڈریوز کا کہنا تھا کہ "اگر فوج قائم رکھنے کے لیے درکار ضروری محصولات کم کر دیے جائیں ، تو فوج کی میانمار کے شہریوں پر حملوں اور انہیں دہشت زدہ کرنے کی صلاحیت گھٹ جائے گی۔"
(اس رپورٹ کے لیے مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)