متحدہ عرب امارات میں ربی کا قتل؛ 'اسرائیل کی تمام ایجنسیاں تحقیقات کر رہی ہیں'

مقامی حکام کے مطابق ربی زوی کوگان متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے ان کے پاس جنوب مشرقی یورپ کے ملک مالدووا کی بھی شہریت تھی۔

  • امارات کی وزارتِ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ ربی کے قتل کے الزام میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
  • وزارتِ داخلہ نے گرفتار افراد کے حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔
  • ربی زوی کوگان کا لاپتا ہونے کا معاملہ جمعرات کو سامنے آیا تھا۔ بعد ازاں ان کی لاش اتوار کو برآمد ہوئی۔
  • مقامی حکام کے مطابق ربی زوی کوگان امارات میں مقیم تھے۔ ان کے پاس مالدووا کی بھی شہریت تھی۔
  • اسرائیلی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی تمام ایجنسیاں اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہیں۔

ویب ڈیسک — متحدہ عرب امارات کی وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ یو اے ای میں اسرائیل کے ایک شہری کے مبینہ قتل کے الزام میں تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اماراتی وزارتِ داخلہ نے گرفتار افراد کے حوالے سے مزید کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کیں اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان پر کیا فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ معاشرے میں عدم استحکام کے کسی بھی خطرے کے تدارک کے لیے تمام قانونی ذرائع فیصلہ کن انداز میں بغیر کسی نرمی کے استعمال کیے جائیں گے۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں 28 سالہ یہودی ربی زوی کوگان کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ یہود مخالف دہشت گردی کی کارروائی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل اس واقعے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام اقدامات کرے گا۔

مقامی حکام کے مطابق ربی زوی کوگان متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے ان کے پاس جنوب مشرقی یورپ کے ملک مالدووا کی بھی شہریت تھی۔

وہ امریکہ کے شہر نیویارک میں قائم آتھوڈوکس یہودیوں کی 'خبد' تحریک سے وابستہ تھے۔

زوی کوگان کا لاپتا ہونے کا معاملہ جمعرات کو سامنے آیا تھا۔ بعد ازاں ان کی لاش اتوار کو برآمد ہوئی۔

اسرائیلی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی تمام ایجنسیاں اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق زوی کوگان کو آخری بار دبئی کی کوشر مارکیٹ میں دیکھا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کی لاش عمان کی سرحد پر واقع اماراتی شہر العین سے برآمد ہوئی تھی۔

دبئی کی کوشر مارکیٹ جہاں آخر بار زوی کوگان کو دیکھا گیا تھا

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دبئی میں موجود سابق اسرائیلی سیاسی رہنما ایوب کارا کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ زوی کوگان کو العین میں قتل کیا گیا تھا یا ان کی موت کہیں اور ہوئی تھی۔

ایواب کارا اسرائیل میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعت لیکوڈ پارٹی کے رکن ہیں اور وہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیانی معاشی تعلقات کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے اشارے ملے ہیں کہ اس کارروائی کی تحقیق کرنے والے اہلکاروں کو ایران کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

دوسری جانب یو اے ای میں ایرانی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک شخص کے قتل میں ایران کے ملوث ہونے کے الزامات کو واضح طور پر مسترد کیا جاتا ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اس معاملے پر یو اے ای کی حکومت سے تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا تھا تاہم حکومت نے اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

SEE ALSO: 'فری فلسطین' کا نعرہ لگانے والا طالبِ علم متحدہ عرب امارت سے مبینہ طور پر ملک بدر

یو اے ای کے ایک اعلیٰ سفارت کار انور گرگاش نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات امن کا گہوارہ، استحکام کا نخلستان، رواداری کا معاشرہ اور پیش رفت کا مینار ہے۔

اس واقعے کے بعد اسرائیل نے ایک بار پھر اپنے شہریوں کے لیے یو اے ای کے غیر ضروری سفر سے اجتناب کا انتباہ جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ امارات میں موجود اسرائیلی شہری غیر ضروری نقل و حرکت سے گریز کریں۔

متحدہ عرب امارات میں ربی کے مبینہ قتل کے بعد وہاں موجود یہودی کمیونٹی صدمے کا شکار ہے۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں امریکہ کی کوشش سے ابراہم ایکارڈ کے تحت قائم ہونے والے سفارتی تعلقات کے بعد 2020 سے یو اے ای میں یہودی زیادہ نمایاں ہوئے ہیں۔ یو اے ای 30 برس میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا پہلا عرب ملک ہے۔

گزشتہ 13 ماہ سے غزہ میں جنگ جاری ہے۔ لیکن اس کے اثرات متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات پر نہیں پڑے۔

SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ: عرب ممالک میں مغربی مصنوعات کو بائیکاٹ مہم کا سامنا

یو اے ای میں موجود یہودی برادری کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر غزہ کی عسکری تنظیم حماس کے حملے کے بعد دبئی میں غیر روایتی عبادت گاہیں یا سینگوگ سیکیورٹی خدشات کے سبب بند کر دیے گئے ہیں اور اب یہودی گھروں میں جمع ہو کر عبادت کرتے ہیں۔

یو اے ای کے سب سے بڑے شہر دبئی میں یہودیوں کی کوئی سرکاری طور پر تسلیم شدہ عبادت گاہ نہیں ہے۔ امارات کی حکومت نے ابوظہبی میں ایک یہودی عبادت گاہ کی منظوری دی ہے جو اب بھی فعال ہے۔

یو اے ای میں اسرائیل کے شہریوں یا یہودیوں کی آبادی سے متعلق سرکاری طور پر کسی قسم کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ مختلف یہودی گروپوں کا اندازہ ہے کہ یو اے ای میں کئی ہزار یہودی موجود ہیں۔

(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)