دو مزاحیہ فنکاروں کی طرف سے پچھلے ماہ امریکی دارلحکومت میں نکالی گئی ایک بڑی ریلی نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ سیاست پر طنزیہ تنقید کو امریکہ میں بہت پذیرائی مل رہی ہے۔
جمی ٹنگل ایک جانے پہچانے امریکی مزاحیہ فنکار ہیں جو نہ صرف ٹیلی ویژن پروگرام اور خبروں میں بلکہ ہر جگہ لوگوں کو ہنسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں ہوائی چکیوں کی مدد سے متبادل توانائی پیدا کرنے کے بارے میں سوچتا رہا ہوں۔ دیکھیے ، آپ ہر ٹریفک لائٹ پر ایک ہوائی چکی لگا دیں جو اسے توانائی مہیا کرے اور اس طرح لائٹس جلتی رہیں۔ لال ، پیلی اور سبز۔ ناقدین اس کو غلط قرار دیں گے کیونکہ اگر کسی دن ہوا نہ چلی تو کیا ہوگا۔ میں کہوں گا ، اس دن آپ ٹریفک لائٹ پر نہ رکیں۔
جمی کہتے ہیں کہ وہ اپنے طنز کے ذریعے لوگوں کو ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچنے پر مجبو ر کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں ان چیزوں کے بارے میں بات کرتا ہوں جن کی مجھے فکر ہوتی ہے۔ اور پھر میں ان چیزوں کے بارے میں مزاح کے حوالے سے سوچتا ہوں۔
ایک چیز جس کے بارے میں جمی فکرمند ہیں وہ ہے انتخابات۔ ان کاکہنا ہے کہ ٹیلی ویژن پر مخالفانہ اشتہارات کسی بھی سیاسی حریف کو برا بنا سکتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ جس کے بارے میں جمی بات کرتے ہیں وہ ہے توانائی کی بچت۔ وہ نیو یارک کی سڑکوں پر چین میں چلنے والے ہاتھ رکشا چلانے کی بات کرتے ہیں۔
جمی ٹنگل کا کہنا ہے ہم یہاں ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایسے امریکی کہاں سے ڈھونڈیں گے جو دوسرے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈھونے کا کام کریں اور وہ کیسے یہ سب کریں گے تو میں کہتا ہوں کہ جوگرز پہن کر۔
جمی ان مذاحیہ فنکاروں میں سے ہیں جو سیاست اور سیاست دانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کا مزاح اتنا متاثر کن ہوتا ہے کہ سیاسی اور عام دونوں قسم کے لوگ ان کی بات دھیان سے سنتے ہیں۔
مزاحیہ فنکار جان سٹیورٹ نے حال ہی میں اپنے پروگرام میں صدر براک اوباما کو مدعو کیا تھا۔ ان کے ایک اور ساتھی سٹیون کولبرٹ اور ان کی قیادت میں ہونے والی ایک ریلی میں پورے امریکہ سے لوگوں نے شرکت کی تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مزاحیہ فنکار لوگوں کو بے دھڑک بولنے پر آماہ کررہے ہیں جبکہ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ مزاحیہ فنکار لوگوں کو مسائل کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
جمی ٹنگل کی سیاست میں دلچسبی انھیں امریکہ کی مشہور یونیورسٹی ہارورڈ کے کینیڈی سکول آف پبلک ایڈمنسٹریشن لے گئی جہاں انھوں نے تعلیم حاصل کی ۔پچھلے سال انھوں اپنی تعلیم مکمل کی اور اسی تقریب میں خطاب بھی کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک عظیم فلم ساز وڈی ایلن نے ایک بار کہا تھا، اگر میں لوگوں کو ہنسا سکوں تو یہ بہت بڑی بات ہوگی اور اگر میں لوگوں کو ہنسنے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کرسکوں تو یہ اس سے بھی بڑی بات ہوگی۔لیکن اگر میں انھیں صرف سوچنے پر مجبور کروں تو میں اپنا کام ٹھیک نہیں کر رہا۔