پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں پچھلے دو دنوں سے پرائیویٹ ٹیکسی چلانے والی دو کمپنیاں ’اوبر ‘ اور ’کریم ‘ شہ سرخیوں میں ہیں ۔
ان کمپنیوں پر الزام ہے کہ یہ غیر رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں ، نہ ان کے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ ہےاور روٹ پرمٹ ۔مزید یہ کہ کمپنی پرائیویٹ گاڑیوں کو کمرشل کرائے بغیر سروس جاری رکھے ہوئے ہے۔
پنجاب حکومت نے ان کمپنیوں کےخلاف پہلے نوٹس لیا جبکہ پنجاب حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کراچی میں بھی نجی ٹیکسی سروس کے خلاف کارروائی کی خبریں سامنے آنے لگیں، ان خبروں میں کچھ اطلاعات ایسی بھی تھیں جن میں کہا جارہا تھا کہ ’کریم ‘کی سروس ایپ بند کرنے کیلئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو خط ارسال کیا جارہا ہے۔
سیکریٹری ٹرانسپورٹ سندھ طحہ فاروقی نے بتایا کہ’ کریم‘ کی انتظامیہ کو رجسٹریشن کے لئے 5 خط لکھے گئے تھے لیکن کمپنی کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ‘اوبر‘ اور ’کریم‘ پر کوئی پابندی نہیں تاہم انہیں سرکاری دائرہ کار میں لانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد حکومت کو ایسی کسی سروس پر اعتراض نہیں ہو گا۔
بدھ کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نےدونوں کمپنیوں کو 15دن میں اپنی کمپنیاں رجسٹرڈ کرانے کی مہلت دے دی جبکہ سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت کراچی سمیت سندھ بھر میں کہیں بھی ’اوبر ‘یا ’کریم‘ کو بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، ان کمپنیز کو سرکاری دائرہ کار میں لانے کے لئے ایک ماہ کی مہلت دے رہے ہیں۔
ادھر ’کریم‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر جنید اقبال نے بتایا کہ’’ ہم نے فٹنس سرٹیفکیٹ اور روٹ پرمٹ لینے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ ہم اب بھی لائسنس اور فٹنس سرٹیفکیٹ لینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ۔ ہم تمام قانونی تقاضے پورے کریں گے ۔‘‘
اگرچہ دونوں صوبائی حکومتوں کی جانب سے اوبر اور کریم کیب سروس کو بند کرنے کے بجائے انہیں رجسٹریشن کے لئے مہلت جانے کی اطلاعات ہیں تاہم وائس آف امریکہ کے نمائندے کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ نہ صرف ٹریفک پولیس نے اپنے طور پر ہی ٹیکسیوں کو جگہ جگہ روکنے، ان کی تلاشی لینے ، عملے کو ڈرانے دھمکانے اور ان سے پیسے وصول کرنا شروع کر دیئے ہیں بلکہ پچھلے دو دنوں سے صارفین نے بھی ان ٹیکسیوں کو استعمال کرنا کم کردیا ہے۔
اس بات کی تصدیق کمپنی کی جانب سے تمام افراد کو ایس ایم ایس سروس کے ذریعے دیا جانے والا یہ پروگرام ہے جس میں کہا گیا ہے سروس بلاتعطل جاری ہے۔
کمپنیاں نشانے پر کیوں؟
آزاد خیال تبصرہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آن لائن یا ایپ کے ذریعے چلنے والے کاروبار پر لوگوں کو اعتماد آتے آتے بہت وقت لگے گا کیوں کہ یہاں عموماً لوگ اس کے عادی نہیں۔ تعلیم کا معیار بھی کچھ اچھا نہیں جبکہ بدعنوانی کے خیالات سے بھی لوگ انہیں استعمال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔
’ اوبر’ اور’ کریم ‘بھی موبائل ایپ کے ذریعے استعمال میں لائی جاتی ہیں جبکہ اس کے کرائے کی رسید بھی فون پر ہی موصول ہوتی ہے اس لئے لوگ محدود پیمانے پر ان سروسز کو استعمال میں لارہے ہیں۔
چونکہ کیب سروسز کی گاڑیاں نجی مالکان کی ہوتی ہیں اس لئے ان پر کسی قسم کا کوئی لوگو یا شناخت نہیں ہوتی۔ کمپنیاں نئی اور چم چماتی گاڑیاں کمپنیز مہنگے پیسوں میں عام لوگوں سے لیکر استعمال کر رہی ہے لہذا عدم اطمینان اور شہر کے مخدوش امن و امان والے ماحول میں ان سے کسی حد تک خوفزدہ ہیں۔
ان سروسز کے باقاعدہ کوئی اسٹینڈ نہیں ہوتے ۔ دفاتر بھی شہر میں ایک دو ہی ہیں۔ وی او اے کے نمائندے نے منگل اور بدھ کو ان دفاتر کا دورہ کیا ۔ پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفنس میں واقع دفاتر پر سیکورٹی کا سخت پہرا تھا۔
دفاتر کی عمارت پر کہیں بھی بورڈ اور علامت نہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ فلاں کمپنی کا آفس ہے ۔ صرف پرانے علاقہ مکین ہی ان دفاتر کا پتہ جانتے ہیں۔ عام لوگوں کو ان کا پتہ بھی نہیں۔
یہی ’خاموشی ‘اور ’لاعلمی ‘ان کمپنیوں کو سرکاری دائرہ کار میں لانے کا ایک بڑا سبب بن رہی ہے۔
دوسری جانب ان کیب سروسز کو مستقل استعمال میں رکھنے والی شہری نوشین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام آدمی کے لئے یہ ٹیکسیاں کسی بیش بہا قیمتی شے سے کم نہیں ۔ خاص کر خواتین کے لئے ۔ ایپ کریں ٹیکسی گھر بلوائیں اور آسانی سے اپنے منزل مقصود پر پہنچ جاتی ہیں لیکن اگر یہ بند کی گئیں تو عوام کے لئے بہت بڑی اور اچھی سروسز بند ہوجائے گی ۔ ‘‘
نوشین کے شوہر ریجان عرفان نے تبادلہ خیال میں بتایا ’’مناسب کرایہ، لگژری گاڑیاں اور آرام دے سفر بھلا کس کو برا لگتا ہے۔۔ برا لگے گا اگر عوام کو اس سروس سے محروم کیا گیا تو۔۔۔‘‘