ذرائع ابلاغ پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم نے اسمارٹ فونز 'بلیک بیری' بنانے والی کینیڈین کمپنی اور برطانوی پولیس حکام کے مابین تعاون کی اطلاعات پر "تشویش" کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ برطانوی پولیس لندن اور دیگر برطانوی شہروں میں ہونے والے حالیہ فسادات میں ملوث افراد کو ان کے موبائلز کے ذریعے شناخت کرنے کی غرض سے 'بلیک بیری' بنانے والی کمپنی سے رابطےمیں ہے۔
تنظیم 'رپورٹز ود آؤٹ بارڈرز' کا کہنا ہے کہ 'بلیک بیری' نے اپنے کئی صارفین کی معلومات برطانوی تفتیشی ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو فراہم کردی ہیں۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ برطانیہ میں ہونے والے حالیہ فسادات میں ملوث فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والے افراد کو بلیک بیری فونز کے ذریعے بھیجے گئے ان کے پیغامات کے ذریعے بآسانی شناخت کرلیا جائے گا۔ یہ فسادات گزشتہ ہفتے ٹوٹینہم کے علاقے میں ایک شہری کے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں مارے جانے کے ردِ عمل میں شروع ہوئے تھے۔
'رپورٹرز وِد آئوٹ بارڈرز' کا کہنا ہے کہ اسے برطانیہ کی "صورتِ حال کی سنگینی" کا احساس ہے تاہم تنظیم کے بقول اسے خدشہ ہے کہ ایک مغربی ملک میں صارفین کی ذاتی معلومات کی پولیس کو فراہمی ایک "پریشان کن مثال" بن سکتی ہے جس کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ تنظیم کے بقول اس مثال سے دوسری قسم کی حکومتیں بھی فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرسکتی ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی نگران تنظیم نے کئی سیاست دانوں کی جانب سے پیش کی گئی اس تجویز پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ 'بلیک بیری'کو اپنی برقی پیغامات کی سہولت معطل کردینی چاہیے۔ تنظیم نے برطانوی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ سوشل نیٹ ورکنگ کے ذرائع کی بندش یا انہیں محدود کرنے کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیں۔
تنظیم نے برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے پیش کردہ اس تجویز پر بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ٹیلی ویژن چینلز کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فسادات کی غیر استعمال شدہ ویڈیوز پولیس کے حوالے کردیں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کے نتیجے میں ٹیلی ویژن چینلز "پولیس کے ہرکاروں میں تبدیل ہوجائیں گے جس سے ان کی آزادی پر زد پڑے گی"۔