دارالعوام سے خطاب کرتے ہوئے تھریسا مے کا کہنا تھا کہ وہ اس ہفتے اپنے ساتھیوں سے مزید بات چیت کریں گی تاکہ اس بات پر غور کیا جا سکے کہ وہ کس طرح شمالی آئرلینڈ اور آئرلینڈ کے عوام سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں
برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے پیر کے روز بریگزٹ سے متعلق اپنا دوسرا منصوبہ پیش کیا جو کہ پہلے منصوبے سے بڑی حد تک مشابہہ ہے۔ تھریسا مے نے آئرلینڈ کی سرحد کے حوالے سے، یورپی یونین سے الگ ہونے کے سمجھوتے کو برطانوی پارلیمان سے منظور کرانے کی کوشش کی تھی۔
تاہم گزشتہ ہفتے برطانوی قانون سازوں نے اُس سمجھوتے کو 202 کے مقابلے میں 432 سے مسترد کر دیا تھا۔ دوسری جانب، یورپی یونین کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ اس سمجھوتے پر دوبارہ مذاكرات نہیں کریں گے۔
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر جرمی کوربِن نے تھریسا مے کے ناکام منصوبے کے مسترد ہونے پر کہا کہ وہ خود فریبی کا شکار ہیں۔
تاہم، تھریسا مے اپنے نئے سمجھوتے کے خد و خال کو واضح کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کے رکن آئرلینڈ اور برطانیہ کےاتحادی شمالی آئرلینڈ کی سرحد پر کسٹم چیک نہ ہونے کی یقین دہانی کرانے والی بیک سٹاپ نامی انشورنس پالیسی پر قانون سازوں کی تشویش پر توجہ دی ہے۔
دارالعوام سے خطاب کرتے ہوئے تھریسا مے کا کہنا تھا کہ وہ اس ہفتے اپنے ساتھیوں سے مزید بات چیت کریں گی تاکہ اس بات پر غور کیا جا سکے کہ وہ کس طرح شمالی آئرلینڈ اور آئرلینڈ کے عوام سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں، جس کی ایوان میں بھی بھرپور حمایت حاصل کی جا سکے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ یورپی یونین جائیں گی تاکہ نئے منصوبے پر بات کر سکیں۔
لیکن یورپی یونین، خود سے برطانیہ کے الگ ہونے کے سمجھوتے پر دوبارہ بات چیت سے انکار کرتا ہے۔ جرمنی کے سیاست دان اُڈو بل مان کا، جو یورپی پارلیمان میں سوشلسٹ گروپ کے سربراہ ہیں، کہنا ہے کہ بیک سٹاپ پر کسی قسم کی نظر ثانی کا مطالبہ کر کے وہ وقت ضائع کر رہی ہیں۔
گو کہ تھریسا اپنے منصوبے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ تاہم، ساتھ ہی وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بریگزٹ پر کنٹرول پوری طرح سے ان کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ جب 29 جنوری کو وہ دارالعوام میں اپنا منصوبہ پیش کریں گی تو قانون ساز اس میں تبدیلیاں لائیں گے۔ ٹھیک دو ماہ بعد یعنی 29مارچ کو برطانیہ پوری طرح سے یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا۔
مہینوں جاری رہنے والے مذاكرات کے بعد، گزشتہ سال نومبر میں، یورپی یونین اور برطانیہ نے علیحدگی کے سمجھوتے پر دستخط کئے تھے۔ لیکن یورپ سے الگ ہونے والے اس سمجھوتے کو برطانیہ کے قانون سازوں نے مسترد کر دیا ہے۔ بریگزٹ کی حمایت کرنے والے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اس سے برطانیہ یورپی بلاک کے قواعد و ضوابط کے تابع رہے گا، اور اپنی ایک خود مختار تجارتی پالیسی پر عمل نہیں کر سکے گا۔
دوسری جانب یورپی یونین سے جڑے رہنے کے قائل قانون ساز کہتے ہیں کہ یہ سمجھوتہ، برطانیہ کےیورپی یونین سے بغیر روک ٹوک کے اقتصادی تعلقات سے کم تر ہے، جو بحیثیت یورپی یونین کے رکن ہونے کے برطانیہ کو حاصل ہیں۔
برطانوی پارلیمان سے مسترد ہونے والے اس منصوبے کے متعلق تھریسا مے کا کہنا ہے کہ وہ آگے بڑھنے کے لئے تمام جماعتوں کے قانون سازوں سے مشاورت کریں گی۔ لیکن قائد حزب اختلاف، جم کوربِن نے بین الجماعتی ملاقاتوں کو ’’دکھاوے کا ایک کرتب‘‘ قرار دیا ہے، جبکہ دیگر اپوزیشن لیڈروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ، توجہ نہیں دے رہیں۔
یورپی یونین سے قریبی اقتصادی تعلقات کے خواہاں قانون ساز چاہتے ہیں کہ تھریسا مے اپنی اس ضد سے پیچھے ہٹیں کہ وہ یورپی یونین کی واحد منڈی اور کسٹم یونین سے الگ ہو جائیں گی۔
پیر کے روز، تھریسا مےنے یورپی یونین نواز قانون سازوں کے اس مطالبے کو رد کر دیا کہ یورپی یونین سے الگ ہونے کے منصوبے کو مؤخر کر دیا جائے یا پھر ایک اور ریفرنڈم کرایا جائے جس میں یہ فیصلہ ہو کہ یورپی بلاک سے جڑے رہا جائے یا نہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کی بات پر توجہ دیتے ہوئے، تھریسا مے نے وعدہ کیا ہے کہ وہ قانون سازوں، ٹریڈ یونین کے نمائندوں، کاروباری گروپوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے مشاورت کریں گی، تاکہ ایک وسیع تر اتفاقِ رائے حاصل کیا جا سکے۔
تھریسا مے کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ مستقل برطانیہ میں رہنے کے خواہاں اُن یورپی یونین کے شہریوں پر لاگو 65 پاؤنڈ کی فیس معاف کر دیں گی۔
یورپی یونین کی پارلیمان میں، بریگزٹ سٹیئرنگ گروپ کے سربراہ، گائے ور ہوف سٹیڈ نے برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے 30 لاکھ شہریوں پر لاگو فیس معاف کرنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ یورپی یونین کی پارلیمان کا ایک اہم ترین مطالبہ تھا۔
تھریسا مے کے سامنے فوری ہدف بریگزٹ نواز قدامت پسند قانون سازوں اور اپنے اتحادی شمالی آئرلینڈ کی ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی کی حمایت حاصل کرنا ہے۔
دونوں گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک اس سمجھوتے کی حمایت نہیں کریں گے، جب تک بیک سٹاپ نامی انشورنس پالیسی کے قواعد ختم نہیں کئے جاتے۔