ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مریض توقع سے زیادہ تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ جبکہ آپریشن کا مطلوبہ نتیجہ دیکھنے کے لیے کچھ وقت انتظار کرنا ہو گا۔
لندن —
برطانیہ میں پہلی بار ہاتھ کی منتقلی کا آپریشن کیا گیا ہے۔51 سالہ مارک کے ہل کے بےحس وحرکت ہاتھ کوعلیحدہ کرنے کے بعد انھیں عطیہ کیا جانے والا ہاتھ لگا دیا گیا ہے۔
8 گھنٹے جاری رہنے والا پیچیدہ آپریشن لیڈز جنرل انفرمری ہسپتال میں پلاسٹک سرجری کے سرجن سیمون کے کی نگرانی میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے کیا۔
ہیلی فیکس یورک شائر سے تعلق رکھنے والے مارک کے ہل کا دایاں ہاتھ اعضاء کی ایک بیماری gout کے باعث حرکت نہیں کر سکتا تھا ۔
آپریشن کے بعد ایک برطانوی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے مارک کے ہل نے بتایا ، کرسمس کے اگلے روز صبح آٹھ بجےانھیں ہسپتال سے ایک کال موصول ہوئی اور بتایا گیا کہ میرے ہاتھ کے لیے ایک ڈونرکا ہاتھ مل گیا ہے۔ مجھے اسی وقت ہسپتال پہنچنا ہوگا اوراسی روز دوپہر ایک بجے تک مجھے اس آپریشن کے لیے تیار کیا جا چکا تھا۔
’’ مجھے ایسا محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ یہ کسی اور کا ہاتھ ہے ،میں انگلیوں کو ہلا سکتا ہوں ،امید کرتا ہوں کہ جلد ہی اپنے کام پر واپس جا سکوں گا ۔‘‘
یہ آپریشن اس لحاظ سے اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن سمجھا جا رہا ہے جب ایک ہی دن مریض کے بے جان ہاتھ کو علیحدہ کیا گیا اوراس کی جگہ عطیہ کیے گئے ہاتھ سے پیوند کاری کردی گئی۔
سرجن کے کہتے ہیں کہ ہاتھ کی پیوندکاری کے آپریشن کی تیاری میں ان کی ٹیم گذشتہ دو سال سے مصروف تھی اس سلسلے میں این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ کے ادارے کے علاوہ انھیں فرانس کے ڈاکٹروں کی بھی معاونت حاصل رہی ہے۔ نومبر کے مہینے میں تیاری مکمل ہونے کے بعد سے انھیں ایک مناسب ڈونر کی تلاش تھی۔
’’اس تاریخی آپریشن کو انجام دینے سے پہلے ہم اس بات پر اطمینان کرنا چاہتے تھے کہ جسے ہاتھ منتقل کیا جائے وہ ایک مضبوط اعصاب کا شخص ہو جو آپریشن کی پیچیدگیوں کو سمجھے اورساتھ ہی وہ عمر بھر ادویات استعمال کرنے پر راضی ہو۔‘‘
پروفیسر کے نے کہا کہ آپریشن کے بعد مریض کو ساری زندگی قوت مدافعت کو دبانے یا کمزور کرنے والی ادوایات کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ ’’تا کہ جسم کبھی اس بیرونی عضو کے خلاف مزاحمت اختیار نہ کر سکےاور، جلد ہی اسےاپنا حصہ سمجھ لے ، ایسےمریضوں کے جسم میں قوت مدافعت کے کمزور پڑ جانےکی وجہ سے کسی بھی قسم کا انفیکشن خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
مسٹر کے ہل کے بارے میں انھوں نے کہا وہ توقع سے زیادہ تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ جبکہ آپریشن کا مطلوبہ نتیجہ دیکھنے کے لیے کچھ وقت انتظار کرنا ہو گا۔
’’اگر مریض 18ماہ تک پابندی سے دوائیں استعمال کرے گا اور ایکسرسائز کرے گا تو اس کا ہاتھ بالکل نارمل طریقے سے کام کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔ تاہم رگوں اور پٹھوں کو جسم کے ساتھ مکمل ہم آہنگی پیدا کرنے میں چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے اس کے بعد ہی مریض اپنے ہاتھ کی حرکت کو محسوس کر سکے گا ۔‘‘
سرجنز کی ٹیم کے مطابق،اس آپریشن میں انھوں نے بے جان ہاتھ کو علیحدہ کرنے اور اس کی جگہ ڈونر کا ہاتھ منسلک کرنے کے لیے جدید سائنٹفک تکنیک استعمال کی ہیں۔
آپریشن کے وقت سرجن کی ٹیم نے دو حصوں میں بٹ کر کام کیا ،ایک ٹیم نے کے ہل کا ہاتھ (کلائی سے تھوڑا اوپرتک ) کاٹ کر علیحدہ کیا اور دوسری ٹیم نے ڈونر کا ہاتھ کاٹ کرعلیحدہ کیا۔ اس دوران انھوں نے 8 شریانوں 3 رگوں اور متعدد پٹھوں اور ہڈیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ۔
ہاتھ کی منتقلی کےعمل کے لیے ایک ایسے ڈونر کی ضرورت ہوتی ہے جس کی دماغی موت واقع ہو چکی ہو مگر اس کا دل حرکت کر رہا ہو،اس قسم کی موت عموما حادثاتی یا کسی شاکڈ کی کیفیت میں واقع ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے ہاتھ کی منتقلی کا آپریشن فرانس میں کیا گیا تھا۔ کلنٹ ہالم ایک ایکسیڈنٹ میں اپنا ہاتھ گنوا چکا تھا ،اسے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے والے لڑکے کا ہاتھ لگایا گیا تھا لیکن اس نے دو سال بعد ڈونر کا ہاتھ علیحدہ کروا دیا اس کا کہنا تھا کہ ،اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ مردہ ہاتھ ہو۔ جبکہ ڈاکٹروں کے مطابق اس نے ادویات کا صحیح استعمال نہیں کیا تھا۔
اب تک ہاتھ کی منتقلی کے کامیاب آپریشن امریکہ اور آسٹریا میں کئے جا چکے ہیں۔
8 گھنٹے جاری رہنے والا پیچیدہ آپریشن لیڈز جنرل انفرمری ہسپتال میں پلاسٹک سرجری کے سرجن سیمون کے کی نگرانی میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے کیا۔
ہیلی فیکس یورک شائر سے تعلق رکھنے والے مارک کے ہل کا دایاں ہاتھ اعضاء کی ایک بیماری gout کے باعث حرکت نہیں کر سکتا تھا ۔
آپریشن کے بعد ایک برطانوی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے مارک کے ہل نے بتایا ، کرسمس کے اگلے روز صبح آٹھ بجےانھیں ہسپتال سے ایک کال موصول ہوئی اور بتایا گیا کہ میرے ہاتھ کے لیے ایک ڈونرکا ہاتھ مل گیا ہے۔ مجھے اسی وقت ہسپتال پہنچنا ہوگا اوراسی روز دوپہر ایک بجے تک مجھے اس آپریشن کے لیے تیار کیا جا چکا تھا۔
’’ مجھے ایسا محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ یہ کسی اور کا ہاتھ ہے ،میں انگلیوں کو ہلا سکتا ہوں ،امید کرتا ہوں کہ جلد ہی اپنے کام پر واپس جا سکوں گا ۔‘‘
یہ آپریشن اس لحاظ سے اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن سمجھا جا رہا ہے جب ایک ہی دن مریض کے بے جان ہاتھ کو علیحدہ کیا گیا اوراس کی جگہ عطیہ کیے گئے ہاتھ سے پیوند کاری کردی گئی۔
سرجن کے کہتے ہیں کہ ہاتھ کی پیوندکاری کے آپریشن کی تیاری میں ان کی ٹیم گذشتہ دو سال سے مصروف تھی اس سلسلے میں این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ کے ادارے کے علاوہ انھیں فرانس کے ڈاکٹروں کی بھی معاونت حاصل رہی ہے۔ نومبر کے مہینے میں تیاری مکمل ہونے کے بعد سے انھیں ایک مناسب ڈونر کی تلاش تھی۔
’’اس تاریخی آپریشن کو انجام دینے سے پہلے ہم اس بات پر اطمینان کرنا چاہتے تھے کہ جسے ہاتھ منتقل کیا جائے وہ ایک مضبوط اعصاب کا شخص ہو جو آپریشن کی پیچیدگیوں کو سمجھے اورساتھ ہی وہ عمر بھر ادویات استعمال کرنے پر راضی ہو۔‘‘
پروفیسر کے نے کہا کہ آپریشن کے بعد مریض کو ساری زندگی قوت مدافعت کو دبانے یا کمزور کرنے والی ادوایات کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ ’’تا کہ جسم کبھی اس بیرونی عضو کے خلاف مزاحمت اختیار نہ کر سکےاور، جلد ہی اسےاپنا حصہ سمجھ لے ، ایسےمریضوں کے جسم میں قوت مدافعت کے کمزور پڑ جانےکی وجہ سے کسی بھی قسم کا انفیکشن خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
مسٹر کے ہل کے بارے میں انھوں نے کہا وہ توقع سے زیادہ تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ جبکہ آپریشن کا مطلوبہ نتیجہ دیکھنے کے لیے کچھ وقت انتظار کرنا ہو گا۔
’’اگر مریض 18ماہ تک پابندی سے دوائیں استعمال کرے گا اور ایکسرسائز کرے گا تو اس کا ہاتھ بالکل نارمل طریقے سے کام کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔ تاہم رگوں اور پٹھوں کو جسم کے ساتھ مکمل ہم آہنگی پیدا کرنے میں چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے اس کے بعد ہی مریض اپنے ہاتھ کی حرکت کو محسوس کر سکے گا ۔‘‘
سرجنز کی ٹیم کے مطابق،اس آپریشن میں انھوں نے بے جان ہاتھ کو علیحدہ کرنے اور اس کی جگہ ڈونر کا ہاتھ منسلک کرنے کے لیے جدید سائنٹفک تکنیک استعمال کی ہیں۔
آپریشن کے وقت سرجن کی ٹیم نے دو حصوں میں بٹ کر کام کیا ،ایک ٹیم نے کے ہل کا ہاتھ (کلائی سے تھوڑا اوپرتک ) کاٹ کر علیحدہ کیا اور دوسری ٹیم نے ڈونر کا ہاتھ کاٹ کرعلیحدہ کیا۔ اس دوران انھوں نے 8 شریانوں 3 رگوں اور متعدد پٹھوں اور ہڈیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ۔
ہاتھ کی منتقلی کےعمل کے لیے ایک ایسے ڈونر کی ضرورت ہوتی ہے جس کی دماغی موت واقع ہو چکی ہو مگر اس کا دل حرکت کر رہا ہو،اس قسم کی موت عموما حادثاتی یا کسی شاکڈ کی کیفیت میں واقع ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے ہاتھ کی منتقلی کا آپریشن فرانس میں کیا گیا تھا۔ کلنٹ ہالم ایک ایکسیڈنٹ میں اپنا ہاتھ گنوا چکا تھا ،اسے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے والے لڑکے کا ہاتھ لگایا گیا تھا لیکن اس نے دو سال بعد ڈونر کا ہاتھ علیحدہ کروا دیا اس کا کہنا تھا کہ ،اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ مردہ ہاتھ ہو۔ جبکہ ڈاکٹروں کے مطابق اس نے ادویات کا صحیح استعمال نہیں کیا تھا۔
اب تک ہاتھ کی منتقلی کے کامیاب آپریشن امریکہ اور آسٹریا میں کئے جا چکے ہیں۔