ڈیوڈ کیمرون نے نیلسن منڈیلا کو ایک عظیم روشنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ، دنیا سے وہ عظیم روشن ہستی ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی ہے''
لندن —
حریت،عزم و ہمت اور نسلی امتیازات کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر نیلسن منڈیلا کی وفات پربرطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے تعزیتی پیغام میں دلی دکھ کا اظہار کیا ہے ۔
10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ڈیوڈ کیمرون نے نیلسن منڈیلا کو ایک عظیم روشنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا سے وہ عظیم روشن ہستی ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی ہے۔‘‘
انھوں نے نیلسن منڈیلا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمارے عہد کے ایک عظیم مینار تھے اور جیتے جاگتے لیجنڈ تھے جو آج انتقال کر گئے ہیں ۔وہ ایک حقیقی ہیرو تھے ۔ ملک بھر میں ان کے چاہنے والے ان کے دنیا سے جانے کا سوگ منائیں گے ایک ایسے آدمی کا سوگ جو مہربانی کا مجسمہ تھا۔۔۔ ان سے ملاقات میری زندگی کا ایک بڑا اعزاز ہے۔‘‘
برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ''میں نیلسن منڈیلا کے اہل خانہ اور جنوبی افریقہ کے عوام اور دنیا بھر میں ان لوگوں کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جن کی زندگیوں کو نیلسن منڈیلا کی جرات نے تبدیل کیا ۔''
ڈیوڈ کیمرون نے اس موقع پر برطانوی پرچم سرنگوں کرنے کا بھی حکم دیا۔
جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا طویل عرصے تک پھپھڑوں کے انفیکشن کی وجہ سے زیر علاج رہے اور جمعرات 5 دسمبر کو 95 برس کی عمر میں جوہانسبرگ میں انتقال کر گئے۔
نیلسن منڈیلا نے اپنے ملک میں نسل پرستی کی بنیاد پر سفید فام لوگوں کے قبضے کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا جس پر انھیں 1993 میں امن کا نوبل انعام دیا گیاجبکہ آزادی کی جدوجہد کے لیے انھوں نے 1962 سے 1990 تک ستائیس برس کی جیل کاٹی۔
نیلسن منڈیلا نے 1994 سے 1999 تک ایک جمہوری صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ اس عرصے میں انھوں نے غربت کے خاتمے کے لیے بہت کام کیا یہی وجہ ہے کہ انھیں 'بابائے قوم 'کے خطاب سے بھی پکارا جاتا ہے۔
عہد صدرات سے سبکدوشی کے بعد انھوں نےایڈز کے موذی مرض کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا جبکہ 2004 ء میں انھوں نے عوامی سرگرمیوں سے خود کو مکمل طور پر دور کر لیا تھا اور زیادہ تروقت اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے تھے ۔
اقوام متحدہ کی جانب سے عظیم سیاسی حکمران کی کامیابیوں کے جشن کے طور پر ہر سال نیلسن منڈیلا کی پیدائش کے دن کو' نیلسن منڈیلا ڈے ' کے نام سے منایا جاتا ہے۔
10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ڈیوڈ کیمرون نے نیلسن منڈیلا کو ایک عظیم روشنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا سے وہ عظیم روشن ہستی ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی ہے۔‘‘
انھوں نے نیلسن منڈیلا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمارے عہد کے ایک عظیم مینار تھے اور جیتے جاگتے لیجنڈ تھے جو آج انتقال کر گئے ہیں ۔وہ ایک حقیقی ہیرو تھے ۔ ملک بھر میں ان کے چاہنے والے ان کے دنیا سے جانے کا سوگ منائیں گے ایک ایسے آدمی کا سوگ جو مہربانی کا مجسمہ تھا۔۔۔ ان سے ملاقات میری زندگی کا ایک بڑا اعزاز ہے۔‘‘
برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ''میں نیلسن منڈیلا کے اہل خانہ اور جنوبی افریقہ کے عوام اور دنیا بھر میں ان لوگوں کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جن کی زندگیوں کو نیلسن منڈیلا کی جرات نے تبدیل کیا ۔''
ڈیوڈ کیمرون نے اس موقع پر برطانوی پرچم سرنگوں کرنے کا بھی حکم دیا۔
جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا طویل عرصے تک پھپھڑوں کے انفیکشن کی وجہ سے زیر علاج رہے اور جمعرات 5 دسمبر کو 95 برس کی عمر میں جوہانسبرگ میں انتقال کر گئے۔
نیلسن منڈیلا نے اپنے ملک میں نسل پرستی کی بنیاد پر سفید فام لوگوں کے قبضے کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا جس پر انھیں 1993 میں امن کا نوبل انعام دیا گیاجبکہ آزادی کی جدوجہد کے لیے انھوں نے 1962 سے 1990 تک ستائیس برس کی جیل کاٹی۔
نیلسن منڈیلا نے 1994 سے 1999 تک ایک جمہوری صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ اس عرصے میں انھوں نے غربت کے خاتمے کے لیے بہت کام کیا یہی وجہ ہے کہ انھیں 'بابائے قوم 'کے خطاب سے بھی پکارا جاتا ہے۔
عہد صدرات سے سبکدوشی کے بعد انھوں نےایڈز کے موذی مرض کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا جبکہ 2004 ء میں انھوں نے عوامی سرگرمیوں سے خود کو مکمل طور پر دور کر لیا تھا اور زیادہ تروقت اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے تھے ۔
اقوام متحدہ کی جانب سے عظیم سیاسی حکمران کی کامیابیوں کے جشن کے طور پر ہر سال نیلسن منڈیلا کی پیدائش کے دن کو' نیلسن منڈیلا ڈے ' کے نام سے منایا جاتا ہے۔