علیحدگی پسند رہنما بورودائی کا کہنا تھا کہ ان کے عسکریت پسند فائر بندی کی پابندی یوکرین حکومت کی طرف سے اعلان کردہ جمعہ کی ڈیڈ لائن تک کریں گے۔
مشرقی یوکرین میں روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند رہنما کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجو کیئف کی طرف سے یک طرفہ طور پر اعلان کردہ جنگ بندی کا احترام کریں گے۔
صدر پیٹرو پوروشنکو نے سرحد پر امن کے قیام کے منصوبے کے پہلے قدم کے طور پر جمعہ کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
روس نواز علیحدگی پسند رہنما الیگزینڈر بورودائی نے فائر بندی کی پاسداری کا اعلان ڈونیٹسک میں کیا جہاں پیر کو باغی رہنماؤں اور یوکرین حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔
بورودائی علیحدگی پسندوں کی خود ساختہ ڈونیٹسک پیپلز ریپبلک کے وزیراعظم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے عسکریت پسند فائر بندی کی پابندی یوکرین حکومت کی طرف سے اعلان کردہ جمعہ کی ڈیڈ لائن تک کریں گے۔
باغی رہنما کا کہنا تھا کہ قیام امن کے لیے وہ کیئف کے ساتھ مزید مذاکرات بھی کریں گے۔
کریملن حال ہی میں یہ کہہ چکا ہے کہ صدر ولادمیر پوٹن یوکرین میں سیاسی مصالحت چاہتے ہیں اور ان کے بقول کسی بھی امن معاہدے میں مشرقی یوکرین میں موجود روسی زبان بولنے والوں کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔
پوروشنکو نے فائر بندی کے احکامات میں یوکرین فوجیوں کو سات روز کے لیے تمام کارروائیاں روکنے کا کہتے ہوئے کہا تھا کہ حملے کی صورت میں انہیں جوابی کارروائی کا حق ہے۔
فروری سے یوکرین اور روس ایک کشیدہ صورتحال کا شکار ہیں جب یوکرین میں مظاہرین نے روس کے حمایت یافتہ صدر کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
درین اثنا، کریملن کے مطابق مسٹر پوٹن نے پیر کو امریکی صدر باراک اوباما سے ٹیلی فون پر یوکرین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
کریملن کا کہنا تھا کہ صدر پوٹن نے ’’صحیح معنوں میں جارحانہ کارروائیوں کے خاتمے اور دونوں فریقوں میں براہ راست مذاکرات‘‘ پر زور دیا جبکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق امریکی رہنما نے اپنے روسی ہم منصب پر زور دیا کہ ’’وہ امن کی حمایت کریں بجائے سرحد پار اسلحہ اور دیگر مواد فراہم کرنے کی اجازت دینے اور یوکرین میں مزید عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے علیحدگی پسندوں کی حمایت جاری رکھنے کے۔‘‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ مسٹر اوباما نے روسی صدر سے کہا کہ یوکرین کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے موثر اقدامات نا کیے گئے تو ماسکو کو اس کے اضافی نتائج بھگتنا ہوں گے۔
صدر پیٹرو پوروشنکو نے سرحد پر امن کے قیام کے منصوبے کے پہلے قدم کے طور پر جمعہ کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
روس نواز علیحدگی پسند رہنما الیگزینڈر بورودائی نے فائر بندی کی پاسداری کا اعلان ڈونیٹسک میں کیا جہاں پیر کو باغی رہنماؤں اور یوکرین حکومت کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔
بورودائی علیحدگی پسندوں کی خود ساختہ ڈونیٹسک پیپلز ریپبلک کے وزیراعظم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے عسکریت پسند فائر بندی کی پابندی یوکرین حکومت کی طرف سے اعلان کردہ جمعہ کی ڈیڈ لائن تک کریں گے۔
باغی رہنما کا کہنا تھا کہ قیام امن کے لیے وہ کیئف کے ساتھ مزید مذاکرات بھی کریں گے۔
کریملن حال ہی میں یہ کہہ چکا ہے کہ صدر ولادمیر پوٹن یوکرین میں سیاسی مصالحت چاہتے ہیں اور ان کے بقول کسی بھی امن معاہدے میں مشرقی یوکرین میں موجود روسی زبان بولنے والوں کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔
پوروشنکو نے فائر بندی کے احکامات میں یوکرین فوجیوں کو سات روز کے لیے تمام کارروائیاں روکنے کا کہتے ہوئے کہا تھا کہ حملے کی صورت میں انہیں جوابی کارروائی کا حق ہے۔
فروری سے یوکرین اور روس ایک کشیدہ صورتحال کا شکار ہیں جب یوکرین میں مظاہرین نے روس کے حمایت یافتہ صدر کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
درین اثنا، کریملن کے مطابق مسٹر پوٹن نے پیر کو امریکی صدر باراک اوباما سے ٹیلی فون پر یوکرین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
کریملن کا کہنا تھا کہ صدر پوٹن نے ’’صحیح معنوں میں جارحانہ کارروائیوں کے خاتمے اور دونوں فریقوں میں براہ راست مذاکرات‘‘ پر زور دیا جبکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق امریکی رہنما نے اپنے روسی ہم منصب پر زور دیا کہ ’’وہ امن کی حمایت کریں بجائے سرحد پار اسلحہ اور دیگر مواد فراہم کرنے کی اجازت دینے اور یوکرین میں مزید عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے علیحدگی پسندوں کی حمایت جاری رکھنے کے۔‘‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ مسٹر اوباما نے روسی صدر سے کہا کہ یوکرین کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے موثر اقدامات نا کیے گئے تو ماسکو کو اس کے اضافی نتائج بھگتنا ہوں گے۔