وزیر اعظم نے اسے مخالفین کی طرف سے پارلیمنٹ پر قبضہ قرار دیا ہے لیکن حزب مخالف کے مطابق یہ بحث سے پہلے کا ایک احتجاج ہے۔
یوکرائن کی پارلیمنٹ میں حزب مخالف طرف سے وزیراعظم مائیکولائی عازاروف کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی جب کہ ملک میں یورپ کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے پر صدر کی طرف سے دستخط نہ کرنے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
حزب مخالف کے رہنما وزیراعظم کی حکومت کو ’’مجرم‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد لے کر آئے تھے جس پر منگل کو ہونے والی رائے شماری میں یہ تحریک ناکام رہی۔
صدر وکٹر یانوکووچ نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور منگل کو وہ چین کے سرکاری دورے پر روانہ ہوگئے تھے۔
کیو میں اس معاہدے کے حامیوں نے حکومت کی ایک مرکزی عمارت کے داخلی راستے کو بلاک کر رکھا ہے جب کہ پارلیمنٹ میں موجود اس کے حامی قانون سازوں نے صدر کے اس اقدام کو سابقہ سوویت یونین کی طرز حکمرانی کی طرف جھکاؤ قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم مائیکولا عازاروف کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے گی جس کے باعث تنخواہوں اور پنشنز کی ادائیگی متاثر ہوسکتی ہے۔
انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے ان کی امریکہ، کینیڈا اور یورپی یونین کے سفراء سے ہونے والی بات چیت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا یہ بیان تحریر کیا ہے کہ "اس میں بغاوت کے تمام اشارے موجود ہیں۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔"
وزیر اعظم نے اسے مخالفین کی طرف سے پارلیمنٹ پر قبضہ قرار دیا ہے لیکن حزب مخالف کے مطابق یہ بحث سے پہلے کا ایک احتجاج ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست رہنما اولیح تیاہنیبوک کا کہنا تھا کہ " کچھ وزراء کابینہ کے باہر احتجاج کریں گے، باقی پارلیمنٹ کے سامنے اور ہم عازاروف کی مجرم حکومت سے استعفے کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔"
دارالحکومت کیو کے انڈیپنڈنس اسکوائر پر مظاہرین نے لمبے عرصے تک احتجاج کا منصوبہ بناتے ہوئے کیمپ قائم کر لیے ہیں۔ اختتام ہفتہ کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
امریکہ نے اس صورتحال کے تناظر میں حکومت سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرنے پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یوکرائن میں تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد کی راہ نہ اپنانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کے حل کے لیے بات چیت شروع کی جائے۔
یوکرائن کے صدر یانوکووچ کے حامی روسی صدر ولادیمر پوٹن کا کہنا ہے کہ یوکرائن میں کیا جانے والا احتجاج انقلاب سے زیادہ نسل کُشی معلوم ہوتا ہے۔
یوکرائن کے صدر نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ روس کے ساتھ اُن کے ملک کے زیادہ قریبی تعلقات ہوں۔
حزب مخالف کے رہنما وزیراعظم کی حکومت کو ’’مجرم‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد لے کر آئے تھے جس پر منگل کو ہونے والی رائے شماری میں یہ تحریک ناکام رہی۔
صدر وکٹر یانوکووچ نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور منگل کو وہ چین کے سرکاری دورے پر روانہ ہوگئے تھے۔
کیو میں اس معاہدے کے حامیوں نے حکومت کی ایک مرکزی عمارت کے داخلی راستے کو بلاک کر رکھا ہے جب کہ پارلیمنٹ میں موجود اس کے حامی قانون سازوں نے صدر کے اس اقدام کو سابقہ سوویت یونین کی طرز حکمرانی کی طرف جھکاؤ قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم مائیکولا عازاروف کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے گی جس کے باعث تنخواہوں اور پنشنز کی ادائیگی متاثر ہوسکتی ہے۔
انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے ان کی امریکہ، کینیڈا اور یورپی یونین کے سفراء سے ہونے والی بات چیت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا یہ بیان تحریر کیا ہے کہ "اس میں بغاوت کے تمام اشارے موجود ہیں۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔"
وزیر اعظم نے اسے مخالفین کی طرف سے پارلیمنٹ پر قبضہ قرار دیا ہے لیکن حزب مخالف کے مطابق یہ بحث سے پہلے کا ایک احتجاج ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست رہنما اولیح تیاہنیبوک کا کہنا تھا کہ " کچھ وزراء کابینہ کے باہر احتجاج کریں گے، باقی پارلیمنٹ کے سامنے اور ہم عازاروف کی مجرم حکومت سے استعفے کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔"
دارالحکومت کیو کے انڈیپنڈنس اسکوائر پر مظاہرین نے لمبے عرصے تک احتجاج کا منصوبہ بناتے ہوئے کیمپ قائم کر لیے ہیں۔ اختتام ہفتہ کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
امریکہ نے اس صورتحال کے تناظر میں حکومت سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرنے پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یوکرائن میں تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد کی راہ نہ اپنانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کے حل کے لیے بات چیت شروع کی جائے۔
یوکرائن کے صدر یانوکووچ کے حامی روسی صدر ولادیمر پوٹن کا کہنا ہے کہ یوکرائن میں کیا جانے والا احتجاج انقلاب سے زیادہ نسل کُشی معلوم ہوتا ہے۔
یوکرائن کے صدر نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ روس کے ساتھ اُن کے ملک کے زیادہ قریبی تعلقات ہوں۔