روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بعض مبصرین اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا چین بھی اپنے پڑوسی تائیوان پر، جسے وہ اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے، حملہ کر سکتا ہے؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں کے حالات میں کچھ مشابہت تو ضرور ہے۔ تائیوان ایک لمبے عرصے سے اگرچہ اپنے پڑوسی ملک کی آمرانہ حکومت کے دباؤ کو برداشت کر رہا ہے اور یہاں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔
تائیوان میں سروس انڈسٹری میں کام کرنے والے ایتن لن نے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ یوکرین اور ان کے ملک کے حالات میں مشابہت ہے، چاہے وہ سیاسی حالات ہوں یا دوسرے تعلقات ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کا ان کے ملک کے ساتھ کئی لحاظ سے رابطہ رہا ہے اور انہیں اس میں خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔
تائیوان چین سے 100 کلومیٹر دور سوا دو کروڑ آبادی کا ایک جزیرہ ہے جسے چین اپنا حصہ سمجھتا ہے۔
عشروں سے جاری یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب تائیوان میں آزادی کے حامی سائی انگ وین کی 2016 میں حکومت آئی اور اس کے ردِ عمل میں چین نے تائیوان کے ارد گرد کے پانیوں میں اپنے جہاز اور جنگی جہاز بھیجنا شروع کر دیے۔
منگل کو چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی مشرقی کمانڈ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے مشرقی بحیرہ چین میں مشقیں کی ہیں۔
مبصرین کے مطابق اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ، جو یوکرین پر حملے کے دوران اپنی افواج نہیں بھیج رہا، کیا وہ تائیوان پر حملے کی صورت میں مداخلت کرے گا؟
امریکہ کے تائیوان کے ساتھ سرکاری سطح پر تعلقات نہیں ہیں البتہ تاریخی طور پر دونوں ممالک کے تعلقات ہیں اور امریکہ تائیوان کو اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیار دیتا رہا ہے۔
امریکہ اپنے قانون کے مطابق اس بات کا پابند ہے کہ وہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔
تائیوان بھی ان سیمی کنڈکٹروں کی صنعت میں نمایاں ہے جنہیں کاروں سے لے کر موبائل فونز میں استعمال کیا جاتا ہے۔
تائیوان کی تمکانگ یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور اور اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے گریجویٹ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر کاؤ چینگ وانگ نے ’اے پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان کی معیشت اور ٹیکنالوجی امریکہ کے لیے اہم ہے اور اس لیے امید کی جاتی ہے کہ امریکہ تائیوان کو زیادہ اہمیت دے گا۔ لیکن اس کا پتا تو کسی کشمکش کے دوران ہی چلے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تائیوان نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ وہ بھی روس پر پابندیاں عائد کر رہا ہے البتہ اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
سائی کی ڈیموکرٹک پروگریسو پارٹی کے ایک قانون دان وانگ تنگ یو نےسوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ایک کونے میں بیٹھ کر یہ نہیں دیکھا جا سکتا کہ بڑی طاقتیں چھوٹے پڑوسی ممالک کو دھمکانا شروع کر دیں۔
چین اور تائیوان میں 1949 کی خانہ جنگی کے دوران تقسیم ہوئی تھی۔ امریکہ نے 1979 میں تائی پی سے اپنے تعلقات بیجنگ کو تسلیم کرنے کے لیے ختم کیے تھے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے جہاں دونوں ممالک کے پر امن طور پر ایک ہونے کو بہترین قرار دیا ہے وہیں چین کی کابینہ کے تائیوان کے امور کا دفتر مسلسل تائیوان کے سیاسی رہنماؤں کو ملک کی سرکاری سطح پر آزادی کے مطالبے پر دھمکاتا رہتا ہے۔
تائیوان کے پاس اب سفارتی سطح پر صرف 14 حلیف ہیں۔