ازبکستان کے شہر سمرقند میں رواں ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن سمیت درجن بھر عالمی رہنماشرکت کریں گے۔
اس برس تنظیم کے موجودہ چئیرمین ازبکستان کے صدرشوکت مرزایوف ہیں۔ انہوں نے سمٹ سے پہلے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’ایس سی او کے تمام رکن ممالک ہمارے قریب ترین ہمسائے، دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔‘‘
اجلاس میں پوٹن اور شی کے علاوہ بھارت، پاکستان قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان کے رہنما شرکت کریں گے۔
اس کے علاوہ بیلاروس، ایران، منگولیا کے رہنما بھی 15 اور 16 ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ آرمینیا، آزربائیجان، ترکی اور ترکمانستان کے رہنماؤں کو خصوصی مہمان کے طور پر شرکت کی دعوت دی گئی ہے جب کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان کا تنظیم میں مقام غیر واضح ہے۔
ایس سی او آغاز میں چین کے زیر سایہ ایک تنظیم شنگھائی فائیو تھی جس کا کام رکن ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کا حل تھا۔ آج اس کے رکن ممالک کی آبادی ساڑھے تین ارب سے زیادہ ہے۔ازبک صدر کا عزم ہے کہ وہ تنظیم کے تحت اتحاد اور تنظیم کےاثر کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے تاشقند میں ایک بیان میں کہا کہ تین برس جاری رہنے والی عالمی وبا کے دوران تجارتی، معاشی اور صنعتی تعلقات درہم برہم ہوئے ہیں، اب ایس سی او کے رکن ممالک اور افراد کو براہ راست بات چیت کرنی چاہیے۔
SEE ALSO: تاشقند کانفرنس: طالبان کیا چاہتے ہیں؟امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ کے نائب صدر ایون فیگین بام کا کہنا ہے کہ اس تنظیم میں اتحاد کا فقدان ہے۔
وائس آف امریکہ کی نوبہار امامووا سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ تنظیم سلامتی کے مسائل کو حل کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔ عشروں سے ایک دوسرے کے دشمن پاکستان اور بھارت تنظیم کا حصہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تنظیم خطے میں معاشی تعلقات بڑھانے میں بھی ناکام رہی ہے کیوں کہ یہ کوئی تجارتی معاہدہ ہے نہ کوئی سرمایہ کاری کی تنظیم۔ تنظیم کے رکن ممالک بہت سے انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں میں بھی اختلاف رکھتے ہیں۔
اس برس سمٹ کو لاحق سب سے بڑا چیلنج روس کی یوکرین میں جاری جنگ ہے۔ تنظیم کے ممبر ملک قازقستان نے سرکاری طور پر روس کی جنگ پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ازبکستان کو ایک سالہ چئیرمین شپ ایسے موقع پر ملی، جب دنیا ایک دور سے دوسرے دور کی جانب قدم بڑھا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کی ازبکستان کے دانش وروں اور دیگر شعبوں کے افراد سے گفتگو کے دوران اس سمٹ کے لیے دلچسپی تو دکھائی دی لیکن وہ اس بارے میں خدشات بھی رکھتے ہیں۔
SEE ALSO: نیا عالمی تجارتی معاہدہ آر سی ای پی؛ کیا چین زیادہ فائدے میں رہے گا؟جواہیر قدراتوو ایک ڈاکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ازبکستان اپنے سلک روڈ کے اہم ترین شہر میں بڑی سرمایہ کاری کے ساتھ یہ سمٹ تو منعقد کر وا رہا ہے تاکہ وہ اثر و رسوخ حاصل کر سکےاور اس طرف توجہ مبذول کروا سکے کہ ایس سی او ممالک دنیا کی ایک چوتھائی جی ڈی پی کے مالک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بلاک میں لاکھوں لوگ اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق انہیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ سمٹ چائے خانہ جیسا بن چکا ہے جہاں ایسے ممالک کے لیڈر جن کے ایک دوسرے سے تعلقات اچھے نہیں ہیں، اور وہ کافی عرصے سے کہیں بیرون ملک نہیں گئےتھے، مل بیٹھتے ہیں۔
تاشقند میں سیاسی مبصر شریف الدین تلگانوو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دنیا کو اس سمٹ کو عملی لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا ’’یہ ایک سالانہ اجتماع ہے۔ یہ اہم بات ہے کہ چینی صدر اس میں شر کت کریں گے جب کہ انہوں نے عالمی وبا کے بعد سے بیرون ملک دورہ نہیں کیا ہے ۔ ہمیں ابھی بھی نہیں معلوم کہ یہ صدور آپس میں ملاقات میں کن امور پر بات چیت کریں گے۔‘‘
تلگانوو نے کہا کہ بھارت اور پاکستان بھی نہیں چاہتے ہیں کہ اس سمٹ کو مغرب کے خلاف دیکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاشقند بھی یہی رائے رکھتا ہے۔