پولیس اور حزب مخالف کے نمائندوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی جب کہ زخمی ہونے والے سینکڑوں افراد میں سے درجنوں کی حالت تشویشناک ہے۔
یوکرائن کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔
دارالحکومت کیوو میں احتجاج کرنے والوں کے ایک مرکزی کیمپ پر لاٹھی چارج کے بعد بدھ کی صبح بھی دستی بم کے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سات پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
پولیس اور حزب مخالف کے نمائندوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی جب کہ زخمی ہونے والے سینکڑوں افراد میں سے درجنوں کی حالت تشویشناک ہے۔
یوکرائن کے صدر وکٹر یانوکووچ نے بدھ کو تشدد کے تازہ واقعے کی ذمہ داری حزب مخالف کے رہنماؤں پر عائد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو حکومت مخالف مظاہروں میں ہتھیار لانے کے لیے زور دینے والے کارکنوں نے جمہوریت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی اور انھیں اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
حزب مخالف کے رہنما ویٹالے کلسچکو نے مذاکرات کے لیے صدر یانوکووچ سے ملاقات کی تھی لیکن اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
کلسچکو کا کہنا تھا کہ صدر نے مطالبہ کیا کہ مظاہرین غیر مشروط طور پر ’’تعطل کو ختم‘‘ کریں اور مظاہرے کی جگہ خالی کردیں۔ لیکن ان کے بقول کیو کے آزادی اسکوائر پر براجمان مغرب کے حامی مظاہرین اپنے موقف پر برقرار رہیں گے۔
امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے مسٹر یانوکووچ کو منگل کو دیر گئے فون کیا اور تشدد کے واقعات پر ’’شدید تشویش‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے یوکرائن کے صدر سے سکیورٹی فورسز کو پیچھے ہٹانے اور حتی الامکان تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔
حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ سال نومبر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب صدر یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کی بجائے روس کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی تھی۔
مظاہرین صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔
دارالحکومت کیوو میں احتجاج کرنے والوں کے ایک مرکزی کیمپ پر لاٹھی چارج کے بعد بدھ کی صبح بھی دستی بم کے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سات پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
پولیس اور حزب مخالف کے نمائندوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی جب کہ زخمی ہونے والے سینکڑوں افراد میں سے درجنوں کی حالت تشویشناک ہے۔
یوکرائن کے صدر وکٹر یانوکووچ نے بدھ کو تشدد کے تازہ واقعے کی ذمہ داری حزب مخالف کے رہنماؤں پر عائد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو حکومت مخالف مظاہروں میں ہتھیار لانے کے لیے زور دینے والے کارکنوں نے جمہوریت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی اور انھیں اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
حزب مخالف کے رہنما ویٹالے کلسچکو نے مذاکرات کے لیے صدر یانوکووچ سے ملاقات کی تھی لیکن اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
کلسچکو کا کہنا تھا کہ صدر نے مطالبہ کیا کہ مظاہرین غیر مشروط طور پر ’’تعطل کو ختم‘‘ کریں اور مظاہرے کی جگہ خالی کردیں۔ لیکن ان کے بقول کیو کے آزادی اسکوائر پر براجمان مغرب کے حامی مظاہرین اپنے موقف پر برقرار رہیں گے۔
امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے مسٹر یانوکووچ کو منگل کو دیر گئے فون کیا اور تشدد کے واقعات پر ’’شدید تشویش‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے یوکرائن کے صدر سے سکیورٹی فورسز کو پیچھے ہٹانے اور حتی الامکان تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔
حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ سال نومبر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب صدر یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے کی بجائے روس کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی تھی۔
مظاہرین صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔