گزشتہ عشرے میں افغانستان میں ایک لاکھ شہری ہلاک و زخمی ہوئے: اقوام متحدہ

نمائندہ خصوصی برائے افغانستان، تدامچی یاماموتو (فائل)

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد عام شہری ہلاک و زخمی ہوئے، جب سے بین الاقوامی ادارے نے جانی نقصان سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اس لڑائی کو شروع ہوئے 18 سال ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان نے ہفتے کے روز یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی ہے، جب امریکہ اور طالبان کے درمیان سمجھوتے کے سلسلے میں سات روز کے لیے تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانے کی شرط کا آج سے آغاز ہو چکا ہے، جس کے بعد 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط ہونے ہیں۔

امریکہ کو امید ہے کہ اس طویل ترین لڑائی کا خاتمہ ہو گا، جس کے بعد امریکی فوجوں کا انخلا ہو گا اور ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے لڑائی میں ملوث افغان مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔

افغانستان کے لیے عالمی ادارے کے سربراہ کے نمائندہ خصوصی، تدامچی یاماموتو نے کہا ہے کہ ''افغانستان میں شاید کوئی ایک سویلین باقی نہیں بچا ہو گا جسے تشدد کی جاری کارروائیوں کے دوران ذاتی طور پر جانی نقصان نہ پہنچا ہو''۔

بقول ان کے ''یہ بات سارے فریقین کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ لڑائی بند کرنے کے اس لمحے کا فائدہ اٹھائیں، کیونکہ عرصے سے امن کا تقاضا کیا جاتا رہا ہے، عام شہریوں کی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیے، جب کہ امن کی کوششیں جاری ہیں''۔

گزشتہ سال ہلاک و زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد میں کسی قدر کمی آئی، جس کے لیے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت اسلامیہ کی طرف سے کی جانے والی ہلاکتوں کے واقعات میں کمی دیکھی گئی۔ امریکہ اور افغان سیکیورٹی فورسز کے علاوہ طالبان نے داعش کے گروپ کا کافی حد تک صفایا کیا۔ طالبان نے داعش کے خلاف شدید لڑائیاں لڑی ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال 3493 شہری ہلاک ہوئے جب کہ 6989 زخمی ہوئے۔ داعش نے شہریوں کی جان کو کم نقصان پہنچایا، زیادہ تر ہلاکتیں طالبان، افغان سیکیورٹی فورسز اور ان کے امریکی اتحادیوں کے ہاتھوں ہوئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے ہاتھوں جانی نقصان میں 21 فی صد اضافہ ہوا، جب کہ افغان سیکیورٹی فورسز اور امریکی اتحادیوں کی کارروائیوں کے باعث ہلاکتوں میں 18 فی صد اضافہ ہوا، حالانکہ 2013ء کے مقابلے میں گزشتہ سال گرائے گئے بموں کی تعداد کم تھی۔

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، مشیل بالے نے بتایا ہے کہ ''شہری آبادی کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تنازع میں شامل تمام فریقین مؤثر احتیاطی تدابیر اختیار کریں، اور عام شہری کی تفریق کو ملحوظ خاطر رکھیں''۔

مشیل نے کہا کہ جنگجوئوں کو مناسب اقدام کرنے چاہیں تاکہ خواتین، مرد، لڑکے اور لڑکیاں بموں، بھاری دہانے کی توپوں کے گولوں، راکٹ اور دیسی ساختہ بارودی سرنگوں سے محفوظ رہیں''۔