اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعرات کو متفقہ طور پر داعش کو فنڈز کی ترسیل روکنے کے اقدامات سے متعلق ایک قرارداد منظور کر لی ہے۔
امریکہ کے وزیر خزانہ جیکب لیو نے کونسل میں وزرائے خزانہ کے ایک غیر معمولی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’داعش کی مالی اعانت کو ہدف بنانا مشکل ہے۔‘‘
’’اگرچہ ہم داعش کو مالی لحاظ سے تنہا کرنے میں پیش رفت کر رہے ہیں مگر ہمیں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو انفرادی طور پر اور عالمی سطح پر تیز کرنا ہو گا۔‘‘
عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے صدر جی یون شن نے کہا کہ ’’داعش کو دوسرے شدت پسند گروہوں کی نسبت زیادہ پیسہ چاہیئے۔ پیسہ اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس گروہ کو شکست دینے کی حکمت عملی میں اس کی مالیاتی ترسیلات کو روکنے اور اس میں خلل ڈالنے کو مرکزی اہمیت دینی چاہیئے۔‘‘
انہوں نے دہشت گرد گروہوں کے ڈھانچے، انفرادی دہشت گردوں کی سرگرمیوں اور ان کی رسد اور معاونت کے نیٹ ورک کو سمجھنے کے لیے فنانشل انٹیلی جنس کی اہمیت کا ذکر بھی کیا۔
داعش اپنی آمدن کا بڑا حصہ بلیک مارکیٹ میں تیل کی فروخت سے حاصل کرتی ہے، جو لگ بھگ پچاس کروڑ ڈالر پر مشتمل ہے۔
جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں پہلی مرتبہ رکن ممالک کے وزرائے خزانہ نے ووٹ دیا۔ انہوں نے متفقہ طور پر ایک طویل اور پیچیدہ قرارداد منظور کی جس میں القاعدہ پر عائد پابندیوں کا دائرہ داعش تک بڑھایا گیا۔
قرارداد رکن ممالک سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ داعش کی مالی اعانت کو روکنے سے متعلق کوششیں تیز کریں۔ اس شدت پسند گروہ نے شام اور عراق کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا ہے اور لیبیا میں بھی اپنے ٹھکانے وسیع کرنا چاہتا ہے۔
یہ قرارداد دہشت گردوں کے ہاتھ روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر مالی ترسیلات کو جرائم کے زمرے میں لاتی ہے۔ اس میں پابندیوں کی خلاف ورزی کی نگرانی کو بہتر کرنے کی شقیں بھی شامل ہیں۔