اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سلامتی کے خدشات کے باعث اس نے عراق میں مشرقی موصل کے لیے اپنی امدادی کارروائیوں کو عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی عراق فورسز نے اس علاقے کا قبضہ شدت پسند تنظیم سے واگزار کروایا تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے ادارے نے بدھ کو بتایا کہ رواں ہفتے معطل کی جانے والی سرگرمیاں جلد بحال کر دی جائیں گی۔
ادارے کی عراق کے لیے معاون لز گرانڈی کا کہنا تھا کہ "عدم تحفظ کی اطلاعات کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم موصل کے مشرقی حصوں کے لیے اس وقت تک مشن نہیں بھیجیں گے جب تک ہم سکیورٹی کی صورتحال کا از سرنو جائزہ نہیں لے لیتے۔"
انھوں نے مزید کہا کہ "یہ جائزہ لیا جا چکا ہے اور ہمیں توقع ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکا، ممکنہ طور پر آئندہ ہفتے کے لگ بھگ دوبارہ سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔"
گزشتہ جمعہ موصل کے مشرقی علاقے میں ایک ریستوران پر خودکش بم حملے میں 14 افراد ہلاک اور 39 زخمی ہو گئے تھے۔ یہ اس نوعیت کی اس علاقے میں دوسری مہلک کارروائی تھی۔
اس حملے سے عراقی فورسز کی طرف سے شدت پسندوں کو یہاں سے نکال باہر کرنے کے بعد پیدا ہونے والی امن کی فضا متاثر ہوئی اور لوگ ایک بار پھر خوف و ہراس کا شکار ہوگئے تھے۔
دریائے دجلہ سے لے کر مغربی علاقوں تک کے حصے سے پیچھے دھکیل دیے جانے والے داعش کے شدت پسند گاہے بگاہے سرکاری عملداری والے علاقوں میں دستی بموں اور راکٹوں سے حملے کرتے رہتے ہیں۔
مشرقی موصل میں گزشتہ چار ماہ سے بجلی کی فراہمی معطل ہے جب کہ یہاں کے شہریوں کو پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے کنوئیں کھودنا پڑے ہیں۔
امریکہ کی حمایت یافتہ عراقی فورسز موصل کے مغربی حصے کے گرد جمع ہو رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں داعش کے خلاف تازہ کارروائی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔