|
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے فلسطین کو نئے حقوق دینے اور اس کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی کوشش کو بحال کرنے کی قرارداد کی منظوری دے دی ہے۔ اور سلامتی کونسل سے فلسطین کو رکن کے طور پر تسلیم کرنےکا مطالبہ کیا ہے
عالمی ادارے نے جمعہ کو 143 ووٹوں سے قرارداد کی منظوری دی۔ 9 ووٹ مخالفت میں آئے اور 25 ممبر غیر حاضر رہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو نئے "حقوق اور مراعات" دینے کے لیے کی منظوری کے ساتھ سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بننے کے لیے فلسطین کی درخواست پر نظر ثانی کرے۔
امریکہ نے اسرائیل اور چند دیگر ممالک کے ساتھ اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔ تاہم کچھ امریکی اتحادیوں نے قرارداد کی حمایت کی جن میں فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اسپین، آسٹریلیا، ایسٹونیا اور ناروے شامل ہیں۔
امریکی موقف
امریکہ کہہ چکا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اقوام متحدہ میں نہیں بلکہ فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے ۔
جمعہ کی ووٹنگ کے بعد، اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا۔ہمارا ووٹ فلسطینی ریاست کی مخالفت کی عکاسی نہیں کرتا۔ ہم بہت واضح ہیں کہ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسے بامعنی طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں،"
انہوں نے کہا " یہ ایک اعتراف ہے کہ ریاست کا درجہ صرف اس عمل کے ذریعہ سامنے آئے گا جس میں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات شامل ہوں گے۔"
اس سے قبل اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے بدھ کے روز کہا تھا,”ہمیں ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ سلامتی کونسل میں قرارداد لانے سے ہم لازمی طور پر کسی ایسے مقام تک پہنچ جائیں گے جہاں سے ہم ایک دو ریاستی حل کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ سکیں گے۔”
امریکہ نے حال ہی میں فلسطینیو ں کی مکمل رکنیت کی ایک قرار داد کو ویٹو کر دیا تھا۔
قرار داد کی منظوری پر اسرائیلی اور فلسطینی ردعمل
فلسطینی سفیر ریاض منصور نے ووٹنگ سے قبل ایک جذباتی تقریر میں کہا۔’ہاں‘ کا ووٹ فلسطینی وجود کے لیے ووٹ ہے۔ یہ کسی بھی ریاست کے خلاف نہیں ہے،''
"لیکن یہ ہمیں ہماری ریاست سے محروم کرنے کی کوششوں کے خلاف ہے۔"انہوں نے کہا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سیکیورٹی کونسل میں اس مسئلے پر ایک اور ووٹنگ کے لیے فلسطینی کوششوں کو تقویت ملی ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’’ فلسطین اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کے حصول کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر جیلاد اردن نے کہا کہ ادارے نے اپنی صفوں میں ایک "دہشت گرد ریاست" کا خیرمقدم کیا ہے۔
اردان نے اسمبلی پر اقوام متحدہ کے چارٹر کو پامال کرنے کا الزام بھی لگایا اور ایسے دو صفحات جن پر لکھا تھا "اقوام متحدہ چارٹر" ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے ایک چھوٹے سے شریڈر میں ڈال دیے جو انہوں نے تھام رکھا تھا۔
مکمل رکنیت کی شرائط
فلسطینی اتھارٹی نے ستمبر 2011 میں اقوامِ متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔ تاہم اس درخواست پر کبھی بھی سیکیورٹی کونسل میں رائے شماری نہیں ہو سکی ہے۔
فلسطینیوں کی درخواست پر جب معاملہ آگے نہ بڑھا تو انہیں 2012 میں جنرل اسمبلی کی ’غیر رکن ریاست‘ کی حیثیت دے دی گئی۔ جس کے بعد ان کو ووٹ کا حق تو حاصل نہیں ہوا۔ لیکن وہ معاہدوں کا حصہ بن سکتے ہیں اور ان کو اقوامِ متحدہ کے ماتحت اداروں جیسے عالمی ادارۂ صحت یا بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں شمولیت کا اختیار حاصل ہو گیا تھا۔
لیکن اقوام متحدہ کا ایک مکمل رکن بننےکی درخواست کو سلامتی کونسل سے منظوری کے بعد جنرل اسمبلی میں کم از کم دو تہائی ووٹوں سے منظوری درکار ہے۔
یہ ووٹ اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے وسیع عالمی حمایت کی عکاسی کرتا ہے، بہت سے ممالک نے غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر غم و غصے کا اظہار کیاہے۔
یہ اقدام ان اطلاعات کے دوران سامنے آیا ہے کہ کئی یورپی ملک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
SEE ALSO: اسپین، آئرلینڈ سمیت یورپی یونین کے مزید ملکوں کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہیورپی یونین
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے جمعرات کو ہسپانوی نشریاتی ادارے آر ٹی وی ای کو بتایا کہ اسپین 21 مئی کو ایسا کرے گا۔ وہ اس سے قبل تاریخ کی تصدیق کے بغیر یہ کہہ چکے ہیں کہ آئرلینڈ، سلووینیا اور مالٹا بھی یہ قدم اٹھائیں گے۔
جمعے کے روز منظور کی گئی اقوام متحدہ کی قرارداد عالمی ادارے میں فلسطین کو اضافی حقوق فراہم کرتی ہے، جس سے اسے مباحثوں میں مکمل حصہ لینے، ایجنڈے کے موضوعات تجویز کرنے اور کمیٹیوں کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے کی اجازت مل جائے گی ۔
تاہم، اسے اب بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہوگا – جنرل اسمبلی کے پاس اسے یہ حق دینے کا اختیار نہیں ہے اور اس کے لیے اسے سلامتی کونسل کی حمایت حاصل کرنی ہوگی۔
فلسطینی ریاست کا مسئلہ کئی عشروں سے عالمی برادری کو پریشان کر رہا ہے۔فلسطینیوں کی مرکزی نمائندہ تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے 1988 میں پہلی بار ریاست فلسطین کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
عملی طور پر، فلسطینیوں کے پاس اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں فلسطینی اتھارٹی (PA) کے ذریعے محدود خود اختیاری حاصل ہے ۔ حماس نے 2007 میں فلسطینی اتھارٹی سے غزہ کی پٹی کا کنٹرول چھین لیا تھا۔ اقوام متحدہ دونوں علاقوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ اور ایک ہی سیاسی یونٹ سمجھتا ہے۔
اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا اور موجودہ اسرائیلی حکومت مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتی ہے۔ اس کاجواز ہے کہ ایسی کوئی ریاست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہو گی۔
اس رپورٹ میں کچھ اطلاعات اے پی سے لی گئی ہیں۔