اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے بدھ کو اسرائیل اور حماس سے عارضی جنگ بندی میں توسیع کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ ہفتے سے جاری جنگ میں ’’حقیقی انسانی بنیادوں پر جنگ بندی‘‘ کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے وزارتی سطح کے اجلاس سے انٹونیو گوتریس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے لوگ ہمارے سامنے ایک بڑی انسانی تباہی سے دوچار ہیں۔ ’’ہمیں اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔‘‘
انہوں نے عارضی جنگ بندی کے دوران متعدد امدادی ٹرکوں اور ایندھن کی ترسیل کا خیرمقدم کیا جو غزہ کے جنوبی اور شمالی حصوں کے لیے تھے ۔ اس جنگ بندی کے دوران حماس کی تحویل میں موجود یرغمال افراد اور ان کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جا چکا ہے۔
گوتریس کہتے ہیں کہ کہ غزہ کے 2کروڑ0 2 باشندوں کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ’’مزید بہت کچھ کرنے‘‘ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ اس وقت صرف ایک کھلی سرحدی چوکی سے زیادہ چوکیاں کھولے اورانہوں نے نجی شعبے سے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔
حماس نے 7 اکتوبر کو دہشت گرد حملوں کے دوران اسرائیل میں تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کیا اور اسرائیلی قصبوں پر راکٹ فائر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 15,000 سے زیادہ بتائی ہےجن میں سے بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔ نامعلوم تعداد میں لوگ منہدم عمارتوں کے نیچے دبے ہیں ۔
گوتریس اور مالکی کا فلسطینی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار
گوتیریس نے کہا کہ جب سے وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دے رہے ہیں انہوں نے کسی بھی تنازع میں مارے جانے والے بچوں کی اس سےبڑی تعداد نہیں دیکھی ۔ وہ جنوری 2017 سے یہ منصب سنبھالے ہوئے ہیں ۔
فلسطینی وزیر خارجہ ریاض مالکی نے الزام لگایا کہ 75 برس قبل 1948کی اسرائیل عرب جنگ کے دوران اسرائیل نے جو کارروائی شروع کی تھی اب اسے مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فلسطینی اس جنگ کے دوران ہونے والی کارروائیوں کو ’نقبہ‘ یا تباہی قرار دیتے ہیں کیونکہ اس وقت بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو بے گھر ہونے کا سامنا ہوا تھا۔
مالکی نے 7 اکتوبر کے بعد سے ہلاک ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں کے بارے میں کہا کہ ’’ متعدد جانیں پلاسٹک کے تھیلوں پر ناموں میں بدل گئیں اور اس زمین کو وقت سے پہلے چھوڑ گئیں ۔‘‘
انہوں نے قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی کے ساتھ طے پانے والی عارضی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا لیکن کہا کہ اسے مستقل جنگ بندی میں تبدیل ہونا چاہئیے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جنگ شروع ہونے کے بعد سے مشرق وسطیٰ کے اپنے تیسرے دورے پر، رملہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔اس سے قبل، بلنکن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی، اور کہا کہ اسرائیل حماس کی جنگ بندی کو طول دینے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ کہ اس عارضی جنگ بندی سے فائدہ ہوا ہے ۔
مالکی نے سفارت کاروں اور کئی عرب اور مسلم وزرائے خارجہ کو بتایا کہ قتل و غارتگری کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ جنگ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی کارروائی ہے جس کا کوئی بھی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا خاتمہ ضروری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسرائیل حماس کے خطرے کو ختم کرنا چاہتا ہے۔اسرائیلی سفیر جیلاد اردان
اسرائیل کے نمائندے نے حماس کے خطرے کو ختم کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا، جسے اسرائیل، امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں ۔
اسرائیلی سفیر جیلاد اردان نے کہا کہ جنگ بندی میں توسیع کا مطلب یہ ہے کہ حماس کو مزید ایک اور دن زندہ رہنا چاہئیے تاکہ وہ اسرائیلیوں کو دہشت زدہ کرے اور غزہ کے لوگوں کے لیے حالات خراب کرے۔
انہوں نے سلامتی کونسل سے کہا کہ اسے اپنے مینڈیٹ پر توجہ دینی چاہئیے جو کہ سلامتی ہے۔
امریکہ نے غزہ کے لیے امداد میں اضافے اور اقوام متحدہ کے عملے اور صحافیوں سمیت شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے ۔ غزہ میں اقوام متحدہ کے فلسطینی عملے کے 110 سے زائدارکان اور 50 فلسطینی صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’امریکہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے اس وقت ہر ممکن اقدام کرے جب وہ اپنے لوگوں کو دہشت گردی کی کارروائیوں سے بچانے کے لیے اپنے حق کا استعمال کرتا ہے۔‘‘
سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’ ہم جانتے ہیں کہ حماس جان بوجھ کر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا جاری رکھے ہوئے ہےاور فلسطینی شہریوں کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن اس سے اسرائیل کی عام شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری کم نہیں ہوتی جو بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن حماس اور دیگر گروپوں کے پاس زیر حراست تمام یرغمالوں کی رہائی کے لیے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے وقفے میں توسیع کی حمایت کرتا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ بندی میں ایک دن کی توسیع، مزید یرغمالی اور قیدی رہا ہونے کا امکاناسرائیل کی جنگی کابینہ بدھ کو دیر گئے ہونے والے اجلاس میں اس بات پر غور کر رہی تھی کہ آیا جنگ بندی میں توسیع کے وقفے کو مزید بڑھایا جائے یا نہیں جبکہ سلامتی کونسل کے دیگر اراکین کو یہ پریشانی تھی کہ جنگ بندی کا وقفہ ختم ہو نے کی صورت میں کیا ہو گا۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ دوبارہ شروع ہونے والی لڑائی کا ایک ایسی آفت کی شکل اختیار کرنے کا امکان ہے جو پورے خطے پر اثرات مرتب کرے گی چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے نومبر میں کونسل کے صدر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین کو پوری امید ہے کہ ایک جامع اور دیرپا جنگ بندی کے لیے مزید سفارتی کوششوں کا آغاز ہوگا
SEE ALSO: رپورٹر ڈائری: عارضی جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور غزہ کے لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟امن عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے مطالبات
ترکی کے وزیر خارجہ حکان فیدان نے خبردار کیا کہ ’’ہمیں اس صورتحال کو تنازعہ کی اصل وجہ سے نمٹنے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہئیے ورنہ آج نظر آنے والی صورتحال کل مزید تباہ کن ہوگی۔‘‘
کئی عرب وزراء نے اقوام متحدہ میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ فی الحال اسے مبصر کا درجہ حاصل ہے۔ اس مطالبے کو تسلیم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس کی منظوری دینی ہو گی لیکن امریکہ کی طرف سے ایسا کرنے کا اس وقت تک امکان نہیں ہے جب تک حتمی اہمیت کے حامل تمام مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کر لیا جاتا۔
وائس آف امریکہ