اقوام متحدہ کی ایک رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ہر سال 70,000 سے زائد خواتین کم عمری میں ماں بننے اور پیچیدگیوں کا شکار ہونے کے باعث ہلاک ہوجاتی ہیں
واشنگٹن —
اقوام ِمتحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں ایسی خواتین جو کم عمری میں ماں بنتی ہیں، حمل کے دوران مختلف پیچیدگیوں اور صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اقوام ِ متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 18 سال کی عمر کی 73 لاکھ لڑکیاں ماں بنتی ہیں، جبکہ 14 برس یا اس سے بھی کم عمر لڑکیوں کے ماں بننے کی سالانہ شرح 20 لاکھ کے قریب ہے۔
ماہرین کے مطابق، دنیا بھر میں کم عمری میں مائیں بننے کی وجہ سے خواتین بہت سے سنجیدہ طبی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات تو کم عمری میں ماں بننے کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی چلی جاتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں 18 سال کے لگ بھگ عمر کی تقریباً 20,000 خواتین روزانہ ماں بنتی ہیں۔
ساتھ ہی، رپوٹ میں بتایا گیا ہےکہ ترقی پذیر ممالک میں ہر سال 70,000 سے زائد خواتین کم عمری میں ماں بننے اور اس دوران پیچیدگیوں کا شکار ہونے کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی کرنے پر پابندی، سکولوں میں اس سلسلے میں تعلیم اور آگہی دینے، ترقی پذیر ممالک میں بروقت طبی امداد دینے اور بہبود ِ آبادی کے طریقے بتانے سے ان مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔
اقوام ِ متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 18 سال کی عمر کی 73 لاکھ لڑکیاں ماں بنتی ہیں، جبکہ 14 برس یا اس سے بھی کم عمر لڑکیوں کے ماں بننے کی سالانہ شرح 20 لاکھ کے قریب ہے۔
ماہرین کے مطابق، دنیا بھر میں کم عمری میں مائیں بننے کی وجہ سے خواتین بہت سے سنجیدہ طبی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات تو کم عمری میں ماں بننے کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی چلی جاتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں 18 سال کے لگ بھگ عمر کی تقریباً 20,000 خواتین روزانہ ماں بنتی ہیں۔
ساتھ ہی، رپوٹ میں بتایا گیا ہےکہ ترقی پذیر ممالک میں ہر سال 70,000 سے زائد خواتین کم عمری میں ماں بننے اور اس دوران پیچیدگیوں کا شکار ہونے کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی کرنے پر پابندی، سکولوں میں اس سلسلے میں تعلیم اور آگہی دینے، ترقی پذیر ممالک میں بروقت طبی امداد دینے اور بہبود ِ آبادی کے طریقے بتانے سے ان مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔