اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو تحفظ دینے سے متعلق وہ قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کرلی ہے جسے سلامتی کونسل میں امریکہ نے ویٹو کردیا تھا۔
مذکورہ قرارداد فلسطین، عرب لیگ کے موجودہ سربراہ الجزائر اور مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم 'او آئی سی' کے موجودہ صدر ملک ترکی کی جانب سے پیش کی گئی تھی جسے دیگر کئی مسلم ممالک کی حمایت بھی حاصل تھی۔
بدھ کو ہونے والی رائے شماری میں قرارداد کے حق میں 120 اور مخالفت میں صرف آٹھ ووٹ پڑے جب کہ 45 ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد کی مخالفت کرنے والوں میں امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ آسٹریلیا، مارشل آئی لینڈ، میکرونیشیا، ناؤرو، ٹوگو اور سولومن آئی لینڈ شامل تھے۔ بیشتر یورپی ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
جنرل اسمبلی نے قرارداد کی منظوری سے قبل امریکہ کی جانب سے قرارداد کے متن میں حماس کا نام لے کر اس کی مذمت کرنے کی ترمیم بھی مسترد کردی۔
گو کہ قرارداد میں حماس کا نام نہیں لیا گیا جسے امریکہ اور اسرائیل غزہ میں ہونے والے تشددکے حالیہ واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، لیکن اس میں "عام شہریوں کے خلاف تشدد کے تمام واقعات، بشمول دہشت گردی، اشتعال انگیزی، تشدد پر اکسانے اور توڑ پھوڑ" کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
قرارداد میں "فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے بے تحاشا، بے دریغ اور بلاامتیاز استعمال پر بھی "افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مسلم ملکوں نے جنرل اسمبلی سے قبل یہ قرارداد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی تھی جہاں کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
لیکن امریکہ نے مستقل ارکان کو حاصل اختیار کا استعمال کرتے ہوئے یہ قرارداد ویٹو کردی تھی جس کے بعد اس کے تجویز کنندگان نے اسے جنرل اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ چند برسوں کے دوران جنرل اسمبلی فلسطین کی حمایت میں کئی ایسی قراردادیں منظور کرچکی ہے جو امریکہ کی مخالفت کے باعث سلامتی کونسل سے منظور نہیں ہوسکی تھیں۔
بدھ کو قرارداد پر رائے شماری سے قبل اپنے خطاب میں اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے دیگر مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنا وقت اسرائیل کی مذمت پر صرف کرنے پر جنرل اسمبلی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
نکی ہیلی نے کہا کہ جنرل اسمبلی آج اپنا قیمتی وقت غزہ کی صورتِ حال پر صرف کر رہی ہے جو ان کے بقول گوکہ ایک اہم مسئلہ ہے لیکن یہ مسئلہ نکاراگوا، ایران، یمن، برما اور ایسے ہی کئی دیگر مقامات پر جاری تنازعات سے کیوں اور کتنا مختلف ہے؟
انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کا اجلاس اس لیے ہورہا ہے کیوں کہ "اسرائیل کو نشانہ بنانا" عالمی ادارے کے بعض ارکان کا "پسندیدہ سیاسی مشغلہ" ہے۔
اپنے خطاب میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی جانب سے اس طرح متحد ہو کر نشانہ بنانا صرف اسرائیل کے لیے ہی مخصوص ہے جو ان کے بقول تنقید یا پالیسی کا اختلاف نہیں بلکہ یہود مخالف رویے کا مظہر ہے۔
گو کہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کے لیے لازم نہیں لیکن اس کی سفارتی اہمیت اور دباؤ اپنی جگہ مسلم ہے۔
بدھ کو منظور کی جانے والی قرارداد میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے کہا گیا ہے کہ وہ 60 روز کے اندر اپنی ایک تحریری رپورٹ اسمبلی میں پیش کریں جس میں اسرائیلی مقبوضات میں آباد فلسطین کی شہری آبادی کے تحفظ اور فلاح کو یقینی بنانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہوں۔
اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر گزشتہ دو ماہ سے زائد عرصے سے خاصی کشیدگی ہے اور مارچ کے اختتام سے اب تک اسرائیلی فورسز کی فائرنگ اور دیگر کارروائیوں میں 120 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔