اقوام متحدہ کے فنڈ برائے اطفال (یونیسیف) نے منگل کے روز افغانستان کے لیے دو ارب ڈالر کے عطیات اکٹھے کرنے کی ایک بڑی اپیل کی ہے تاکہ فوری طور پر ملک کے دو کروڑ 40 لاکھ افراد کو بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مدد دی جا سکے، جس میں سے نصف تعداد بچوں پر مشتمل ہے۔
امدادی ادارے نے کہا ہے کہ یہ رقم صحت، غذا، تعلیم، پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے علاوہ ملک میں بچوں کے سماجی بہبود پر خرچ کی جائے گی تاکہ لوگوں کو درپیش بحران سے بچنے میں مدد دی جا سکے، جہاں لوگوں کو اپنے بچوں کو موسم سرما کی شدت سے بچانے کے لیے اپنے گھروں کو گرم رکھنے کی فکر لاحق ہے۔
SEE ALSO: موسم سرما کی شدت میں اضافہ، لاکھوں افغان فوری امداد کے منتظرافغانستان کے لیے یونیسیف کی نمائندہ، ایلس اکونگا نے ایک بیان میں افغانستان کو درپیش انسانی بحران کی صورت حال سے خبردار کیا ہے جس میں خاص طور پر بچوں کی صحت کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ یونیسیف نے کہا ہے کہ اضافی رقوم میسر نہ ہونے کے باعث ادارہ اور اس کے شراکت دار دیگر ادارے مشکل میں گھرے ہوئے بچوں اور خاندانوں کی فوری امداد سے قاصر ہیں۔
انھوں نے عطیہ دہندگان سے حمایت کی اپیل کی تاکہ انسانی ہمدردی کا کام کیا جا سکے جس سے بچے زندہ رہ سکیں، انھیں غذائیت پر مبنی خوراک مل سکے، وہ محفوظ ہوں اور تعلیم حاصل کر سکیں۔ بقول ان کے، ''یہ کام اتنا آسان نہیں ہے، لیکن اگر ہم نے اب بھی پیش رفت نہیں کی، تو پھر بہت دیر ہو چکی ہو گی''۔
یونیسیف کے اندازوں کے مطابق کھانے کی اشیا کا بحران اور لازمی سماجی خدمات تک رسائی کی ابتر صورت حال کے باعث، سال 2022ء تک افغانستان میں ہر دو میں سے ایک بچہ ''غذائیت کی شدید قلت'' کا شکار ہو گا۔
اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق، اگر اساتذہ کو تنخواہیں نہیں ملتیں اور غربت کی سطح مزید گر جاتی ہے تو اس کا براہ راست نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک کروڑ بچے اسکول نہیں جا پائیں گے۔
ملک سے امریکی قیادت والی مغربی افواج کا انخلا ہونے پر اگست کے وسط سے، جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے، تادیبی کارروائی کے طور پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے اس اسلام نواز گروپ پر پابندیاں لگا دی ہیں، جس کے بعد غیر معمولی سطح کے انسانی بحران نے جنم لیا۔
حقیقت میں یہ انسانی بحران متعدد سالوں تک لڑائیوں کے نتیجے میں بڑھتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں غربت کی سطح بلند تر ہو گئی اور قحط سالی کے اثرات ملک بھر میں پھیل گئے۔
بدترین معاشی اور انسانی بحران کے نتیجے میں پریشان حال افغان خاندان ہمسایہ ملکوں کی جانب نقل مکانی کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مہاجرین سے متعلق ناروے کے ایک ادارے نے بتایا ہے کہ یومیہ لگ بھگ 5000 افغان ہمسایہ ملک ایران میں داخل ہوتے ہیں، اس سفر کے لیے اسمگلروں کی مدد سے غیر قانونی اور کٹھن راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران 300،000 سے زائد افراد نے ایران کی سرحد پار کی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ (آئی سی جی) نے پیر کے روز بتایا کہ ''طالبان کی جانب سے اقتدار پر کنٹرول کے بعد افغان ریاست اُس وقت سخت بحرانی صورت حال سے دوچار ہوئی جب ملک کے اثاثے منجمد کیے گئے، اعانتی رقوم بند ہو گئیں اور صرف انسانی ہمدردی کی نوعیت کے مقاصد کے لیے پابندیاں محدود پیمانے پر نرم کی گئیں''۔
آئی سی جی نے اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ افغان سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں، بنیادی سہولیات فراہم نہیں ہو پا رہی ہیں، مالیاتی شعبہ معطل ہو چکا ہے جب کہ معیشت ڈاواں ڈول ہے۔
بین الاقوامی کرائسز گروپ نے کہا ہے کہ ''جس بڑے پیمانے پر لوگ ملک سے باہر نقل مکانی کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں ہجرت کا ایک اور بڑا ریلہ آئے گا۔ ریاست کی تباہی مغربی ملکوں کی شہرت پر ایک دھبہ ثابت ہو گی، جسے پہلے ہی بدنظمی کی صورت حال میں انخلا پر دھچکا لگ چکا ہے''۔