صدر براک اوباما نے اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کی طرف سے امریکی صحافی کا سر قلم کرنے کو تشدد کو "وحشت ناک اقدام" قرار دیا۔
بدھ کو ایسٹونیا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ صحافی اسٹیون سوٹلوف کو ہلاک کرنے والے جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس میں ناکام ہو گئے کیونکہ امریکہ اور دنیا کو بربریت سے مرغوب نہیں کیا جا سکے گا۔
"ان (دہشت گردوں) کے وحشیانہ اقدام نے صرف ہمیں ملک کے طور پر متحد اور ان دہشت گردوں کے خلاف ہماری لڑائی کے عزم کو مضبوط کیا ہے۔ اور جو امریکیوں کو نقصان پہنچانے کی غلطی کرتے ہیں وہ سیکھ جائیں گے کہ ہم یہ بھولیں گے نہیں اور ہماری رسائی بہت دور تک ہے اور انصاف ہو گا۔"
قومی سلامتی کونسل کی ترجمان کیٹلن ہیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام اس وڈیو کے درست ہونے کی تصدیق میں مصروف ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ نامی تنظیم کے شدت پسندوں کی طرف سے دوسرے امریکی یرغمالی صحافی کو ہلاک کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
بدھ کو نیوزی لینڈ میں اپنے خطاب میں انھوں نے شدت پسند گروہ کی عام شہریوں کے ’’وحشیانہ قتل‘‘ کی طرف توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
’’یہ سراسر ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کے غیر انسانی، وحشیانہ جرائم جو کہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ان ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور یہ اقوام متحدہ کی مسلمہ پالیسی ہے۔‘‘
منگل کو شدت پسندوں کی طرف سے جاری کی گئی وڈیو میں بظاہر صحافی اسٹیون سوٹلوف نظر آنے والے شخص کا قلم کیا گیا۔
وڈیو میں نظر آنے والے ایک نقاب پوش نے تنظیم کے بقول ڈیوڈ ہائنز نامی برطانوی شہری کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے حکومتوں کو متنبہ کیا کہ وہ "اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکہ کے شیطانی اتحاد" سے پیچھے ہٹ جائیں۔
اس شخص نے صدر براک اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے کا کہا کہ سوٹلوف کی موت امریکہ کی طرف سے شدت پسندوں پر کی گئی بمباری کا ردعمل تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ حکام اس وڈیو کے مصدقہ ہونے کی جانچ کر رہے ہیں اور ان کے بقول اگر یہ حقیقت پر مبنی ہے تو ہم سب انتہائی "تکلیف دہ" ہے۔
شدت پسندوں کی طرف سے گزشتہ ماہ ایک اور امریکی صحافی جیمز فولی کا سر قلم کرنے کی وڈیو بھی جاری کی گئی تھی۔
اسٹیون سوٹلوف امریکی جریدوں "ٹائم" اور "فان پالیسی" سے وابستہ رہ چکے تھے اور انھیں شدت پسندوں نے شام سے اگست 2013ء میں اغوا کیا تھا۔
اسلامک اسٹیٹ جو کہ پہلے دولت اسلامیہ فی عراق ولشام (داعش) کے نام سے سرگرمیاں کر رہی تھی، عراق کے شمال اور مغرب میں مختلف علاقوں پر قابض ہے جہاں عراقی سکیورٹی فورسز اور شیعہ ملیشیا ان سے نبردآزما ہے۔
امریکہ کی طرف سے شمالی علاقوں پر حالیہ ہفتوں میں شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کی گئی تھیں جب کہ وہاں عسکریت پسندوں کے خوف سے محصور اقلیتی برادری کے لوگوں کو امدادی سامان بھی مہیا کیا تھا۔