اقوام متحدہ نے منگل کے روز تین خواتین کو ایران میں خواتین کی قیادت میں ہونے والےان مظاہروں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کی تحقیقات کی سربراہی کے لیے نامزد کیا ہے جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کو تین ماہ سے زیادہ عرصے سے ہلا کر کھا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ فیڈریکو ولیگاس نے اعلان کیا کہ بنگلہ دیش سپریم کورٹ کی وکیل سارہ حسین، پاکستانی نژاد برطانوی قانون کی پروفیسر ، مصنفہ اور عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن شاہین سردار علی اورارجنٹائن کی انسانی حقوق کی کارکن ویویانا کرسٹیوچ ، حقائق تلاش کرنے والے مشن کی غیر جانبداررکن ہوں گی۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کی سارہ حسین جو ایک طویل عرصے سے انسانی حقوق کی کارکن ہیں، تحقیقات کی سربراہی کریں گی۔
ایران کی جانب سے ان تینوں کو ملک میں داخل ہونے اور اپنے مشن کو انجام دینے کی اجازت دینے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ تہران نے بین الاقوامی تحقیقات کی تشکیل کی شدید مخالفت کی ہے جس کے لیے گزشتہ ماہ حقوق کونسل کے 47 اراکین نے ووٹ دیا تھا۔
یہ تینوں خواتین ایرانی حکام کے مظاہرین پر جبر اور انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دیں گی تاکہ ایران یا دیگر جگہوں پر حکام کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کی جا سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پروفیسر شاہین سردار علی کون ہیں؟
پاکستانی نژاد برطانوی قانون کی پروفیسر شاہین سردار علی کا تعلق سوات سے ہے،انہوں نےاسلامی قانون، انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق کے میدان میں بڑے پیمانے پر لکھا ہے۔ وہ نیشنل اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن پاکستان کی ریکٹر، 25 سال تک پشاور کی لاء یونیورسٹی کی پروفیسر اور اسی یونیورسٹی میں ویمنز اسٹڈی سینٹر کی ڈائریکٹر رہی ہیں۔
شاہین علی نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت میں صحت، آبادی کی بہبود اور خواتین کی ترقی کی پہلی خاتون کی وزیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ وہ خواتین کے قومی تحقیقاتی کمیشن کے ساتھ ساتھ پاکستان میں وزیر اعظم کی مشاورتی کمیٹی برائے خواتین میں بھی شامل رہی ہیں۔
ایران میں ہونے والا احتجاج
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے بڑے پیمانے پر مظاہرے ستمبر میں 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی حراست میں موت کے بعد پورے ملک میں پھیل چکے ہیں، جس کے نتیجے میں احتجاج کرنے والوں کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ پرتشدد اور بعض اوقات جان لیوا جھڑپیں ہوئیں۔
حکام نے کچھ مظاہرین کو پھانسی دی ہے اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا ہے ۔تہران کا کہنا ہے کہ یہ فسادات ہیں جس کی ایران کےدشمن اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
SEE ALSO: ایرانی والدین کی اپنے کراٹے کےچیمپئن بیٹے کی جان بخشی کی اپیلانسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قانونی طریقہ کار میں تیزی لائی گئی ہے اور تشدد کے ذریعے اعترافات کرائے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ ستمبر کے وسط سے اب تک لگ بھگ 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جب کہ اوسلو میں قائم ایک این جی او، ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے دوران اب تک 469 مظاہرین مارے جا چکے ہیں۔
اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد ایجنسی فرانس پریس سےلیا گیا ہے۔