|
جمعرات کو اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سخت گیر طالبان کی حکومت نے خواتین پر شرعی ڈریس کوڈ یا حجاب کے نفاذ کی اپنی مہم میں نرمی کی ہے۔ تاہم، افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن، یا، UNAMA نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں جاری رہیں۔
طالبان نے افغان خواتین کے لیے "شرعی حجاب" کو لازم قرار دیا ہوا ہے ،جس کے تحت انہیں اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے یا صرف آنکھیں ظاہر کرنےکی اجازت ہے۔
ڈریس کوڈ کے نفاذ کی کارروائیاں گروپ کی امر باالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ، اگرچہ افغانستان میں یوناما کو حجاب کی ہدایات کے نفاذ سے متعلق طالبان کی وزارت کے بارے میں رپورٹس موصول ہوتی رہیں، لیکن دسمبر 2023 اور جنوری 2024 کے درمیان نفاذ کے اقدامات کے بڑے پیمانے پر خاتمے کے باعث جنوری 2024 کے بعد ایسے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔
SEE ALSO: خواتین حجاب کے بغیر میڈیا پر نہ آئیں: افغان طالبان11 جنوری کو، UNAMA نے افغانستان بھر میں لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ پیش آنے والے ایسے متعدد واقعات کے بارے میں خبردار کیا تھا جن میں مبینہ طور پر حجاب کی پابندی نہ کرنے پر کچھ کا کمیونی کیشن رابطہ منقطع کر دیا گیا، کچھ کو حراست میں رکھا گیا اور کچھ کے ساتھ مبینہ طور پر بدسلوکی کی گئی۔ طالبان حکام نے اس وقت اقوام متحدہ کے خدشات کو "غلط" اور "پروپیگنڈا" قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
جمعرات کو جاری یوناما کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم پر مسلسل پابندی کے باعث افغانستان کے ہائی سکولوں میں نئے تعلیمی سال کا آغاز لڑکیوں کی موجودگی کے بغیر ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ،"کابل میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر ڈی فیکٹو وزارت تعلیم کی طرف سے ایک تقریب میں شرکت کے لیے میڈیا کو جاری کیے گئے ایک دعوت نامے میں خواتین کے لیے مناسب جگہ کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے، خواتین صحافیوں کو خاص طور پر شرکت نہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔"
Your browser doesn’t support HTML5
یوناما نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ افغانستان میں صحافی اور میڈیا ورکرز مسلسل ایک ایسے چیلنجنگ ماحول میں کام کر رہے ہیں، جس میں میڈیا کو طالبان کی طرف سے عائد متعدد پابندیوں اور اپنے کام کے دوران کسی بھی وقت حراست کے خطرے کا سامنا ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان حکام نے قتل کے الزام میں سزائے موت پانے والے تین افراد کو سرعام پھانسیاں دیں۔ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے، انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے اس عمل کو روکنے کے مطالبے کے باوجود قتل کے پانچ مجرموں کو سرعام پھانسی دی ہے۔
SEE ALSO: طالبان: قتل کے دو مجرموں کو سرعام سزائے موتیوناما نے اپنی رپورٹ میں کہا، "ڈی فیکٹو حکام عدالتی جسمانی سزا کا سرعام نفاذ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، ایسی سزائیں ہر ہفتے کم از کم ایک صوبے میں ہوتی ہیں ۔"
طالبان اسپورٹس اسٹیڈیمز میں ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں سینکڑوں مردوں اور عورتوں کو سرعام کوڑے مار چکے ہیں۔ متاثرین کو طالبان کی عدالتوں کی طرف سے ایسے جرائم، مثلاً چوری، ڈکیتی، زنا اور دوسرے"اخلاقی جرائم" میں سزا سنائی گئی تھی۔
SEE ALSO: افغانستان:سیاسی سرگرمیوں پر تین افراد کو طویل قید اورکوڑوں کی سزائیںافغان خواتین کو اقوام متحدہ سمیت کئی سرکاری اور نجی کام کی جگہوں سے بھی روک دیا گیا ہے۔
طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے یہ کہتے ہوئے اپنی حکمرانی کا دفاع کیا ہے کہ یہ مقامی ثقافت اور اسلامی قانون کے عین مطابق ہے۔
انہوں نے اپنی پالیسیوں پر بین الاقوامی تنقید اور اسلامی قانون کی سخت تشریح کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
SEE ALSO: ہبت اللہ اخوندزادہ: مذہبی اسکالرز افغانستان میں مغربی جمہوری طرزکامقابلہ کریں گےبین الاقوامی برادری نے طالبان حکومت کو بنیادی طور پر افغان خواتین کے ساتھ اس کے سخت سلوک کی بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
(ایاز گل، وی او اے نیوز)