اقوامِ متحدہ کے امور کی داخلی نگرانی کے دفتر کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لائیبیریا میں تعینات اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے اہلکاروں نے پیسوں، زیورات، موبائل فون، ٹیلی وژن اور دوسری اشیا کے بدلے جنسی خدمات حاصل کیں۔
لائیبیریا میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے ایک ترجمان نے کہا کہ ان کا مشن امن فوجیوں کی جانب سے جنسی استحصال پر سیکرٹری جنرل کی مکمل عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشن نے لائیبیریا میں امن فوجیوں کی جانب سے ممکنہ غلط طرز عمل کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے "انٹرنل اوورسائٹ سروسز" کے دفتر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لائیبیریا کے دارالحکومت مونروویا میں 18 سے 30 سال کی عمر کی 489 عورتوں کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے ایک چوتھائی نے اقوامِ متحدہ کے امن فوجیوں سے عموماً پیسوں کے بدلے جنسی تعلق قائم کیا تھا۔
لائیبیریا میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے ترجمان نے بتایا کہ مشن نے اس طرح کے ممکنہ غلط طرز عمل کو کم سے کم کرنے کے لیے امن فوجیوں کے لیے آگاہی کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے مشن کا مشاہدہ ہے اس کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کے باعث حالیہ برسوں میں غلط جنسی طرز عمل کے الزامات میں کمی آئی ہے۔
مگر رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ’’اقوامِ متحدہ امن فوجیوں کی جانب سے جنسی استحصال کے واقعات کو کم بتا کر بڑے پیمانے پر جاری اس مسئلے کی گمبھیرتا کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘
اندازہ ہے کہ لائیبیریا میں 14 سالہ خانہ جنگی کے دوران پیدا ہونے والے ہزاروں بچوں کے باپ نائجیریا اور گھانا کے وہ فوجی تھے جو ملک میں "اکنامک کمیونیٹی آف ویسٹ افریقن سٹیٹس مانیٹرنگ گروپ" کی امن فوج کا حصہ تھے۔ ان بچوں کو غربت میں چھوڑ دیا گیا اور بالآخر یہ بچے ناصرف اپنی ماؤں بلکہ پورے معاشرے کے لیے بوجھ بن گئے۔
انسانی حقوق کے وکیل اور لائیبیریا کے سابق سولیسیٹر جنرل ٹائیوان گونگلو نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کا کوئی فوجی یا غیر ملکی ملازم اگر ایک لائبیریائی عورت کے ساتھ بچہ پیدا کرتا ہے تو اس بچے کی کفالت کرنا اس کی قانونی ذمہ داری ہے۔
’’افریقہ اور اقوامِ متحدہ کے امن فوجیوں کے بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے بچنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے امن مشن کو لائیبیریا کی ان عورتوں کو سامنے لانا چاہیئے جن کے بچوں کے باپ اس کے ملازمین ہیں تاکہ ان لوگوں کو ان بچوں کی کفالت کے لیے انتظامات کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔‘‘
مگر اکثر لائبیریائی ماؤں کو معلوم نہیں ہوتا کہ امن فوجی کب ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ گونگلو نے کہا کہ اقومِ متحدہ کے لائیبیریا میں امن مشن اور ملک کی صنفی امور کی وزارت کو ان بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیئے۔