استبول کانفرنس رمضان کے بعد تک کے لیے ملتوی کر دی گئی، ترک وزیرِ خارجہ

فائل فوٹو

ترکی کے وزیرِ خارجہ میولوت چاووشوغلو نے کہا ہے کہ 24 اپریل کو افغانستان میں قیامِ امن کے لیے استنبول میں ہونے والی مجوزہ کانفرنس رمضان کے بعد تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ترک وزیرِ خارجہ نے یہ بات ترکی کے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتائی۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس کی تیاریوں میں بعض مسائل کی وجہ سے کانفرنس ملتوی کی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ طالبان نے کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی تھی یا نہیں۔

اس سے قبل منگل کے روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گٹیریز کے دفتر کے ترجمان نے ترکی کے شہر استنبول میں اس مہینے کی 24 تاریخ کو ہونے والی کانفرنس میں طالبان کی جانب سے شرکت نہ کرنے کی میڈیا رپورٹس پر براہ راست سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کانفرنس کے ملتوی ہونے کی تصدیق نہیں کر سکتے۔

تاہم ترجمان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ، طالبان اور افغانستان کی حکومت دونوں فریقوں کے نمائندوں کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہیں تاکہ بین الافغان مذاکرات کے عمل کو مضبوط بنایا جا سکے۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ مارگریٹ بشیر کے مطابق جینیوا میں روزانہ کی بریفنگ کے دوران جب افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن جوجورس سے استبول کانفرنس کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ڈیبرا لائنز پچھلا پورا ہفتہ دوحہ میں قیام پذیر رہی ہیں۔ افغان فریقوں کے ساتھ بات چیت میں بین الاقوامی کمیونٹی بہترین انداز میں مدد فراہم کر رہی ہے تاکہ ایک پائیدار سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات میں پیش رفت ہو سکے۔

ترجمان سٹیفن جوجورس کا کہنا تھا کہ ہماری توجہ اس وقت بین الافغان مذاکرات پر ہے جو آگے کی راہ کے لیے انتہائی اہم مرحلہ ہے۔

اس موقع پر ترجمان سے جب براہ راست سوال کیا گیا کہ آیا وہ استنبول کانفرنس کے ملتوی ہونے کی خبروں کی تصدیق کر سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا ’ میں ایسا نہیں کر سکتا‘

دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلا کے لیے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی جانب سے گیارہ ستمبر کی نئی ڈیڈ لائن مقرر کیے جانے پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مبصرین اب بھی اس حوالے سے منقسم ہیں کہ آیا یہ فیصلہ طویل جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائے گا یا پھر کئی دہائیوں سے شورش کا سامنا کرنے والے افغانستان کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ڈاکٹر پال ڈی ملر، واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاون یونیورسٹی میں اسکول آف فارن سروس میں پروفیسر ہیں، انہوں نے امریکہ کے لیے بطور ملٹری انٹیلی جنس آفیسر اور نیشنل سکیورٹی سٹاف میں پاکستان اور افغانستان کے امور کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں پروفیسر ملر نے افغانستان سے انخلا کے بائیڈن انتظامیہ کے فیصلے کو ایک غلطی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان نے گزشتہ بیس برسوں میں بہت پیش رفت کی ہے اور جو کامیابیاں اس عرصے میں حاصل ہوئی ہیں، وہ اب تک نازک اور کمزور ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ افغان فوج اب بھی امریکی معاونت کے بغیر شاید ہی از خود آپریشن کرنے کے لیے تیار ہو۔

بائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے کے افغانستان کے لیے جاری امن مذاکرات پر کیا اثرات ہوں گے؟ اس سوال پر پروفیسر ملر کا کہنا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کا عمل تو جاری رہے لیکن مستقبل قریب میں کسی قابل ذکر پیش رفت کا امکان نہیں ہے۔ ان کے بقول طالبان اس عمل کو طول دے سکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وقت ان کے حق میں ہے اور طالبان ان مذاکرات میں کوئی بڑی رعایت دینے پر بھی شاید ہی آمادہ ہوں۔

پروفیسر پال ملر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا سے دہشتگرد گروپوں کو صورت حال کا فائدہ اٹھانے اور دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل سکتا ہے لیکن وہ 2001 سے پہلے کی طرح آزاد نہیں ہوں گے کیونکہ طالبان اب القاعدہ اور اس طرح کے گروپوں کو کھلی چھٹی نہیں دیں گے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ، داعش، پاکستانی طالبان، لشکر طیبہ اور دیگر گروپ سمجھتے ہیں کہ اس پیش رفت سے سرحدی علاقے میں انہیں کسی حد تک موافق ماحول میسر ہو گا۔

امریکہ کے افغانستان اور پاکستان کے لیے سابق نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن کی رائے اس سے مختلف ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے القاعدہ کو بلاشبہ بہت حد تک تباہ کر دیا ہے۔ لیکن اس کو زیادہ نقصان افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان اور وفاق کے زیرانتظام (سابق) قبائلی علاقوں اور ایبٹ آباد میں پہنچایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت افغانستان یا پاکستان سے القاعدہ کو امریکہ کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے۔

رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ امریکہ کے انخلا سے اس بات کا امکان موجود ہیں کہ افغانستان میں تنازعے میں شدت کا ایک نیا دور دیکھنے کو ملے۔ لیکن امید ہے کہ امریکہ افغانستان کی حکومت کے لیے امداد جاری رکھے گا۔ بالخصوص مالی امداد اور اس کے لیے ورلڈ بنک، افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے مدد کرتا رہے گا اور افغان فوج کی بھی مدد جاری رکھے گا۔

سابق نمائندہ خصوصی اور یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے وابستہ تجزیہ کار رچرڈ اولسن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کی اچھی کوشش کی ہے، فروری میں وزرا خارجہ کی کانفرنس ہوئی اور پھر برسلز ہی میں وزیر خارجہ بلنکن نے نیٹو اتحادیوں کو اعتماد میں لیا اور افغان پالیسی پر نظر ثانی کے بعد اپنے انخلا کے فیصلے سے آگاہ کیا۔

رچرڈ اولسن نے امید ظاہر کی کہ افغان فریقوں کے درمیان امن عمل جاری رہے گا لیکن ان کے بقول طالبان کٹرپن یا غیر لچک دار رویہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے دوحا میں وہ لچک نہیں دکھا رہے تھے، اب ان کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ استنبول کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے، اس صورت حال میں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی امکانات پر توجہ بڑھائی جائے۔ مسٹر اولسن نے کہا کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر کام کرے کہ طالبان مذاکرات کی میز پر آئیں۔ طالبان نے، سابق سفیر کے بقول، اپنے بنیادی مقاصد حاصل کر لیے ہیں اور اب ان کو اپنے ہم وطن افغانوں کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے۔

رچرڈ اولسن نے اقوام متحدہ کی اس معاملے میں شرکت اور کردار کے حوالے سے کہا کہ عالمی ادارہ ماضی کی نسبت زیادہ متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ اور ان کے خیال میں اب علاقے کے دیگر ممالک بھی کردار نبھانے کے لیے تیار ہیں۔