اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بلا امتیاز بمباری زیادہ تر شہری ہلاکتوں کا سبب بنی جب کہ لوگوں کے اندرون ملک بے دخل اور پڑوسی ممالک میں پناہ لینے کی بھی بنیادی وجہ یہی رہی۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت اور حزب مخالف کے جنگجو کسی احتساب کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قتل و غارت گری میں ملوث رہے ہیں۔
شام سے متعلق عالمی ادارے کے کمیشن نے بدھ کو ایک رپورٹ میں ’’ شدید گولہ باری اور محاصرے، وسیع پیمانے پر تشدد، قتل اور جنسی زیادتیوں‘‘ کا ذکر کیا۔
رپورٹ کے مطابق بلا امتیاز بمباری زیادہ تر شہری ہلاکتوں کا سبب بنی جب کہ لوگوں کے اندرون ملک بے دخل اور پڑوسی ممالک میں پناہ لینے کی بھی بنیادی وجہ یہی رہی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ 2011ء سے جاری بحران کے باعث شام سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ 42 لاکھ سے زائد لوگ اندرون ملک اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
کمیشن نے رپورٹ میں کہا کہ دونوں فریقوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹ میں شام کی حکومت کے حامی تفتیش اور اپنے مخالفین کو دبانے اور سزا دینے کے لیے تشدد کرتے ہیں جب کہ ایسے ’’ٹھوس اشارے‘‘ ملے ہیں کہ حزب مخالف کے گروپ اپنے زیر تحویل میں موجود لوگوں پر تشدد اور ان سے نامناسب سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
اس تازہ رپورٹ میں مئی سے جولائی تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا۔ کمیشن نے اپنی سابقہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب بھی ’’ ان عناصر کی طرف سے یہ کارروائیاں جاری ہیں اور انھیں کسی احتساب کا خوف نہیں۔‘‘
رپوٹ میں سرکاری فوج کے کنٹرول میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ حالیہ مہینوں میں اس نے باغیوں سے متعدد علاقوں کا قبضہ بحال کروایا ہے۔
کمیشن کے مطابق سرکاری فورسز علاقوں پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے ’’بھاری اور بعض اوقات بلا امتیاز ہتھیاروں کے استعمال‘‘ پر تکیہ کرتی ہیں۔
رپورٹ میں ایک بار پھر لڑائی میں شامل تمام فریقوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شہری علاقوں پر بلا امتیاز گولہ باری بند کریں، تشدد اور بچوں کا بطور جنگجو استعمال روک دیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔
مزید برآں کمیشن نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ اس بحران کا کوئی فوجی حل نہیں۔ یہاں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ سیاسی عمل کی حمایت کریں جو کمیشن کے بقول ’’امن کا واحد راستہ‘‘ ہے۔
شام سے متعلق عالمی ادارے کے کمیشن نے بدھ کو ایک رپورٹ میں ’’ شدید گولہ باری اور محاصرے، وسیع پیمانے پر تشدد، قتل اور جنسی زیادتیوں‘‘ کا ذکر کیا۔
رپورٹ کے مطابق بلا امتیاز بمباری زیادہ تر شہری ہلاکتوں کا سبب بنی جب کہ لوگوں کے اندرون ملک بے دخل اور پڑوسی ممالک میں پناہ لینے کی بھی بنیادی وجہ یہی رہی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ 2011ء سے جاری بحران کے باعث شام سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ 42 لاکھ سے زائد لوگ اندرون ملک اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
کمیشن نے رپورٹ میں کہا کہ دونوں فریقوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹ میں شام کی حکومت کے حامی تفتیش اور اپنے مخالفین کو دبانے اور سزا دینے کے لیے تشدد کرتے ہیں جب کہ ایسے ’’ٹھوس اشارے‘‘ ملے ہیں کہ حزب مخالف کے گروپ اپنے زیر تحویل میں موجود لوگوں پر تشدد اور ان سے نامناسب سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
اس تازہ رپورٹ میں مئی سے جولائی تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا۔ کمیشن نے اپنی سابقہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب بھی ’’ ان عناصر کی طرف سے یہ کارروائیاں جاری ہیں اور انھیں کسی احتساب کا خوف نہیں۔‘‘
رپوٹ میں سرکاری فوج کے کنٹرول میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ حالیہ مہینوں میں اس نے باغیوں سے متعدد علاقوں کا قبضہ بحال کروایا ہے۔
کمیشن کے مطابق سرکاری فورسز علاقوں پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے ’’بھاری اور بعض اوقات بلا امتیاز ہتھیاروں کے استعمال‘‘ پر تکیہ کرتی ہیں۔
رپورٹ میں ایک بار پھر لڑائی میں شامل تمام فریقوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شہری علاقوں پر بلا امتیاز گولہ باری بند کریں، تشدد اور بچوں کا بطور جنگجو استعمال روک دیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔
مزید برآں کمیشن نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ اس بحران کا کوئی فوجی حل نہیں۔ یہاں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ سیاسی عمل کی حمایت کریں جو کمیشن کے بقول ’’امن کا واحد راستہ‘‘ ہے۔