روزانہ لگ بھگ 137 خواتین اپنے قرابت داروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں: رپورٹ

فائل

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا میں ہر روز اپنے خاندان اور ساتھی کے ہاتھوں لگ بھگ 137 خواتین قتل ہو جاتی ہیں۔

یہ بات منشیات و جرائم کے کنٹرول سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والی مطالعاتی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اتوار کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 87 ہزار خواتین قتل ہوتی ہیں اور ان میں سے لگ بھگ 50 ہزار خواتین اپنے خاندان کے افراد یا اپنے قریبی ساتھی کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ گنوا دیتی ہیں۔

منشیات و جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر یوری فیدوتوف نے ایک بیان میں کہا ہے اگرچہ دنیا میں قتل ہونے والے افراد میں زیادہ تر مرد ہیں۔ تاہم، صنفی عدم مساوات کی وجہ امتیازی اور منفی سماجی رویوں کی وجہ سے ایسے واقعات میں خواتین بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ قتل ہونے والی زیادہ تر خواتین اپنے خاندان کے افراد یا اپنے ساتھی کے ہاتھوں اپنی جان گنوا رہی ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ ہونے والی خواتین سے متعلق الگ سے کوئی اعداد و شمار نہیں دیے گیے۔ تاہم، خواتین کے حقوق کے لے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال سیکڑوں خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔

حقوق نسواں کمیشن پنجاب کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اکثر پیش آتے رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ خواتین نشانہ بنتی ہیں جو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 90 فیصد خواتین کی شادی کے فیصلے ان کے گھر والے کرتے ہیں اور جس میں ان کی رضامندی نہیں پوچھی جاتی؛ اور جب وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اقدام اٹھاتی ہیں تو ان کو قتل کی دھمکی دی جاتی ہے؛ اور بعض اوقات ان کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ سالوں میں غیرت کے نام قتل کے واقعات کے سدباب کے لیے کی جانے والی قانون سازی کے بعد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے سدباب میں مدد ملی ہے۔ تاہم، ان کے بقول، سماجی اور معاشرتی طور پر بھی مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

فوزیہ وقار نے کہا کہ "ایک طرف قانون کا سخت ہونا دوسری طرف اس کا اطلاق کرنے والوں کی ذہنیت بدلنا اور اس کے ساتھ ان گھرانوں کی سوچ بدلنا ضروری ہے جو خواتین کو اپنا حق استعمال کرنا سرکشی سجھ کر انہیں قتل کر دیتے ہیں۔"

انہوں نے کہا سوچ کی تبدیلی کا عمل تعلیمی اداروں میں شروع کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ خواتین سے متعلق معاشرے کے منفی رویوں کو تبدیل کیا جا سکے۔

فوزیہ وقار نے کہا کہ اگرچہ حالیہ سالوں میں حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قوانین کا مؤثر نفاذ کرنے کے ساتھ کئی انتظامی اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، ان کے بقول، صورت حال میں اس صورت بہتری آسکتی ہے جب عورتوں سے متعلق معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی آئے گی۔