اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے ( یو این ایچ سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران 55 لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
یو این ایچ سی آر کی طرف سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کہ یہ تمام افراد وہ ہیں جو ابھی بے گھر ہوئے ہیں اور یہ ان پانچ کروڑ بیس لاکھ افراد کے علاوہ ہیں جو 2013ء کے اواخر تک دنیا بھر میں بے گھر ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کو خدشہ ہے کہ اگر اس شرح سے لوگ بے گھر ہوتے رہے تو اس سال کے اواخر تک ایک ریکارڈ تعداد میں وہ لوگ ہوں گے جنہیں مجبوراً اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔
اس رپورٹ میں گزشتہ سال جنوری سے لے کر جون تک سامنے والے نئے رحجانات کے مطابق دنیا بھر میں 14 لاکھ افراد اپنے ملکوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ جب کہ باقی 40 لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں اپنے ہی ملکوں میں نقل مکانی کرنی پڑی۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان ایڈرین ایڈورڈ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلی بار شامی مہاجرین کی آبادی افغان مہاجرین سے زیادہ ہو گئی ہے۔
ایڈورڈ نے کہا کہ "شام ایک ایسی جنگ سے گزر رہا ہے جس سے سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ جہاں 2014ء کے وسط تک تقریباً ایک کروڑ افراد کو ملک کے اندر نقل مکانی کرنی پڑی۔ ان کی تعداد میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت کئی دیرینہ اور نئے تنازعات ہیں۔
شام اور افغانستان کے علاوہ دوسرے نمایاں ممالک جن کے مہاجرین کی دیکھ بھال یو این ایچ سی آر کر رہی ہے ان میں صومالیہ، جنوبی سوڈان، عوامی جمہوریہ کانگو، برما اور عراق شامل ہیں۔
ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ ان جاری تنازعات کا شکار ملکوں کے قریبی ممالک ہی مہاجرین کی بھاری تعداد کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اردن اور لبنان جن کی اپنی آبادی بہت تھوڑی ہے وہ مجموعی طور پر 18 لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہے ہیں جب کہ سب سے زیادہ اقتصادی بوجھ اتھیوپیا اور پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے جو اپنی معیشتوں کے حجم کی نسبت زیادہ مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔
دوسری طرف جمہوریہ وسطی افریقہ اور جنوبی سوڈان میں بڑے تنازعات کے سبب کثیر تعداد میں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ ممالک بہت کم اس بات کے اہل ہیں کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی میزبانی کر سکیں اور اکثر اوقات امداد دینے والے امیر ملکوں کی طرف سے مناست امداد بھی انہیں نہیں ملتی۔