اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ 2017ء کے دوران دنیا بھر میں جاری تنازعات اور لڑائیوں میں 10 ہزار سے زائد بچے ہلاک یا زخمی ہوئے۔
عالمی ادارے نے 'چلڈرن اور مسلح تصادم' کے عنوان سے اپنی سالانہ رپورٹ بدھ کو جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کی "سنگین خلاف ورزیوں" کے 21 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں دنیا کے 20 ممالک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں یمن، شام اور افغانستان سمیت وہ ممالک شامل ہیں جہاں مسلح تصادم اور تنازعات زوروں پر ہیں۔
رپورٹ میں شامل چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں:
- یمن میں گزشتہ سال 1300 بچے مارے گئے جن میں سے نصف کی ہلاکتوں کا ذمہ دار سعودی عرب کی قیادت میں قائم عرب ملکوں کا اتحاد ہے۔ اتحاد کی کارروائیوں اور حملوں میں 300 بچے زخمی بھی ہوئے۔
- نائیجیریا اور عراق میں حکام نے بالترتیب 2200 اور 1000 بچوں کو اس بنیاد پر قید کیا کہ ان کے اہلِ خانہ پر شدت پسند گروہوں سے تعلق کا شبہ تھا۔
- صومالیہ میں سرگرم دہشت گرد تنظیم 'الشباب' نے بطور فوجی یا جنسی غلام استعمال کرنے کے لیے 1600 سے زائد بچوں کو اغوا کیا۔
- جنوبی سوڈان میں جاری مسلح تصادم کے دوران بھی گزشتہ سال 1200 سے زائد بچوں کو 'بچہ فوجی' کے طور پر بھرتی کیا گیا۔
- یمن میں بھی 11 سال یا اس سے کم عمر کے 840 سے زائد بچوں کے ایسے کیس سامنے آئے جن میں انہیں بطور فوجی بھرتی اور مسلح تصادم میں استعمال کیا گیا۔
رپورٹ تیار کرنے والی اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خصوصی برائے اطفال اور مسلح تصادم ورجینیا گامبا نے کہا ہے کہ تنازعات کا نشانہ بننے والے ان تمام بچوں کو دنیا کے دیگر بچوں کی طرح حقوق حاصل ہیں اور انہیں دوبارہ معمول کی زندگی کی جانب لوٹنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں ورجینیا گامبا نے کہا ہے کہ سینٹرل افریقن ری پبلک، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو، میانمار، جنوبی سوڈان، شام اور یمن وہ ممالک ہیں جہاں گزشتہ سال بچوں کے خلاف سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔