اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی خانہ جنگی سے 96 لاکھ شامی باشندے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے الزام عائد کیا ہے کہ شام کی حکومت امدادی سامان کو بھی ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جس کے باعث لاکھوں افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
عالمی ادارے کی امدادی سرگرمیوں کے نگران ادارے 'او سی ایچ اے' کے ڈائریکٹر جان جنگ کے بقول شام میں جاری بحران اس حد تک پھیل چکا ہے کہ اب ملک کا کوئی علاقہ ایسا نہیں رہا جہاں موت اور تباہی رقص نہ کرتی ہو۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتےہوئے عالمی ادارے کے عہدیدار نے بتایا کہ شام میں ہر ماہ پانچ ہزار افراد ہلاک ہورہے ہیں اور اب تک شام کی خانہ جنگی ڈیڑھ لاکھ انسانی جانیں نگل چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی خانہ جنگی سے 96 لاکھ شامی باشندے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے باعث 65 لاکھ شامی باشندے بے گھر ہو کر اندرونِ ملک مارے مارے پھر رہے ہیں جب کہ 27 لاکھ سے زائد افراد پڑوسی ملکوں میں پناہ گزین ہیں۔
جان جنگ کے مطابق شام کی جنگ اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس سے متاثر ہونے والوں کی داد رسی ممکن نہیں رہی۔ان کے بقول امدادی اہلکار اپنی جانیں داؤ پر لگا کر بھی لاکھوں متاثرہ افراد تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔
عالمی ادارے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ شام میں تعلیم، صحت اور دیگر خدمات کی فراہمی کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے اور لوگ بنیادی ضروریات کے سہارے زندگی کاٹ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں کو ان 35 لاکھ شامی باشندوں تک امداد پہنچانے میں انتہائی دقت پیش آرہی ہے جو ایسے علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں تک رسائی مشکل ہے۔
ان کے بقول شام کے جنگ زدہ علاقوں میں ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ عام شہری محصور ہیں جن کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ نے نے شام میں امدادی سرگرمیوں کے لیے عالمی برادری سے 5ء6 ارب ڈالر کے عطیات کی اپیل کی ہے جو عالمی ادارے کی جانب سے مانگی جانے والی تاریخ کی سب سے بڑی رقم ہے۔
تاہم بار بار کی اپیلوں اور شام کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باوجود عالمی ادارے کو اب تک اس رقم کا ایک چوتھائی ہی موصول ہوسکا ہے۔
عالمی ادارے کی امدادی سرگرمیوں کے نگران ادارے 'او سی ایچ اے' کے ڈائریکٹر جان جنگ کے بقول شام میں جاری بحران اس حد تک پھیل چکا ہے کہ اب ملک کا کوئی علاقہ ایسا نہیں رہا جہاں موت اور تباہی رقص نہ کرتی ہو۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتےہوئے عالمی ادارے کے عہدیدار نے بتایا کہ شام میں ہر ماہ پانچ ہزار افراد ہلاک ہورہے ہیں اور اب تک شام کی خانہ جنگی ڈیڑھ لاکھ انسانی جانیں نگل چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی خانہ جنگی سے 96 لاکھ شامی باشندے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے باعث 65 لاکھ شامی باشندے بے گھر ہو کر اندرونِ ملک مارے مارے پھر رہے ہیں جب کہ 27 لاکھ سے زائد افراد پڑوسی ملکوں میں پناہ گزین ہیں۔
جان جنگ کے مطابق شام کی جنگ اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس سے متاثر ہونے والوں کی داد رسی ممکن نہیں رہی۔ان کے بقول امدادی اہلکار اپنی جانیں داؤ پر لگا کر بھی لاکھوں متاثرہ افراد تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔
عالمی ادارے کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ شام میں تعلیم، صحت اور دیگر خدمات کی فراہمی کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے اور لوگ بنیادی ضروریات کے سہارے زندگی کاٹ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں کو ان 35 لاکھ شامی باشندوں تک امداد پہنچانے میں انتہائی دقت پیش آرہی ہے جو ایسے علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں تک رسائی مشکل ہے۔
ان کے بقول شام کے جنگ زدہ علاقوں میں ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ عام شہری محصور ہیں جن کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ نے نے شام میں امدادی سرگرمیوں کے لیے عالمی برادری سے 5ء6 ارب ڈالر کے عطیات کی اپیل کی ہے جو عالمی ادارے کی جانب سے مانگی جانے والی تاریخ کی سب سے بڑی رقم ہے۔
تاہم بار بار کی اپیلوں اور شام کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے باوجود عالمی ادارے کو اب تک اس رقم کا ایک چوتھائی ہی موصول ہوسکا ہے۔