مجوزہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اگر شام منحرف ہوتا ہے تو اسے عالمی تنظیم کے باب سات کے تحت اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ اس کے خلاف ممکنہ تعزیرات یا فوجی کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی حوالگی سے متعلق قرارداد کا مسودہ زیر غور ہے۔
جمعرات کو رات دیر گئے ہنگامی طور پر شروع ہونے والے بند کمرہ اجلاس سے قبل امریکہ اور روس ہفتوں کے مذاکرات کے بعد شام کے بارے میں ایک مسودے پر متفق ہوئے تھے۔
مسودے کے مطابق شام پہلے ہی اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے حوالے کرنے پر رضا مندی اور اس عزم کا اظہار کر چکا ہے کہ وہ ایسے ہتھیاروں سے متعلق عالمی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔
مجوزہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اگر شام ایسا کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو اسے عالمی تنظیم کے باب سات کے تحت اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ اس کے خلاف ممکنہ تعزیرات یا فوجی کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔
روس اور چین نے اس طرز بیان کو خودکار فوجی کارروائی قرار دیتے ہوئے مخالف کی تھی جب کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس کے حامی ہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما رواں ماہ کے اوائل میں کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوجی کارروائی کی دھمکی ہی سے شام کے صدر بشارالاسد اپنے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی کنٹرول میں دینے پر تیار ہوئے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ سلامتی کونسل اس قرارداد پر کب رائے شماری کرے گی۔
مسٹر اسد ان الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں کہ گزشتہ ماہ دمشق کے قریب ہونے والے حملوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ان کی فورسز نے کیا۔ اس حملے میں امریکی انٹیلی جنس اداروں کے مطابق 1400 افراد ہلاک ہوئے۔
مسودہ قرارداد میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ایسے ہتھیاروں کا استعمال عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
جمعرات کو رات دیر گئے ہنگامی طور پر شروع ہونے والے بند کمرہ اجلاس سے قبل امریکہ اور روس ہفتوں کے مذاکرات کے بعد شام کے بارے میں ایک مسودے پر متفق ہوئے تھے۔
مسودے کے مطابق شام پہلے ہی اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے حوالے کرنے پر رضا مندی اور اس عزم کا اظہار کر چکا ہے کہ وہ ایسے ہتھیاروں سے متعلق عالمی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔
مجوزہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اگر شام ایسا کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو اسے عالمی تنظیم کے باب سات کے تحت اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ اس کے خلاف ممکنہ تعزیرات یا فوجی کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔
روس اور چین نے اس طرز بیان کو خودکار فوجی کارروائی قرار دیتے ہوئے مخالف کی تھی جب کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس کے حامی ہیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما رواں ماہ کے اوائل میں کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوجی کارروائی کی دھمکی ہی سے شام کے صدر بشارالاسد اپنے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی کنٹرول میں دینے پر تیار ہوئے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ سلامتی کونسل اس قرارداد پر کب رائے شماری کرے گی۔
مسٹر اسد ان الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں کہ گزشتہ ماہ دمشق کے قریب ہونے والے حملوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ان کی فورسز نے کیا۔ اس حملے میں امریکی انٹیلی جنس اداروں کے مطابق 1400 افراد ہلاک ہوئے۔
مسودہ قرارداد میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ایسے ہتھیاروں کا استعمال عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔